
نیلسن منڈیلا، جارج واشنگٹن اور رومن سیاسی مدبر، سِنسناٹس میں کون سی قدر مشترک ہے؟
ہر ایک نے اپنے آپ سیاسی اقتدار سے کنارہ کشی اختیار کی۔
عشروں تک اقتدار سے چمٹے رہنے والے آمروں کے مقابلے میں یہ تضاد بڑا واضح ہے۔ مشی گن کی ریاستی یونیورسٹی کے پولٹیکل سائنٹسٹ، ولیم بی ایلن کے مطابق رضاکارانہ طور پر اقتدار چھوڑنا ” کسی حکمران کی ذاتی خواہش سے اوپر اٹھ کر معاشرے کے اختیار کے سامنے عاجزی سے جھکنے کے مترادف ہے … [اور] یہ جمہوری کردار کی ایک خاصیت ہے۔”

امریکہ کے پہلے صدر، جارج واشنگٹن نے تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑنے سے یہ اعلان کرتے ہوئے انکار کیا کہ کسی بھی صدر کے لیے دو صدارتی مدتیں کافی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد، دو صدارتی مدتوں کو قانونی شکل دینے کے لیے آئین میں ترمیم کی گئی۔
جب 1999ء میں جنوبی افریقہ کے صدر کی حیثیت سے اپنی ایک مدت پوری کرنے کے بعد نیلسن منڈیلا رضاکارانہ طور پر اقتدار سے کنارہ کش ہوئے تو انہوں نے رومن سیاسی مدبر، لوسیس کوئنکٹس سِنسناٹس ( 519 تا 430 قبل مسیح) کی پیروی کی جنہوں نے دو موقعوں پر قریب قریب مکمل ہنگامی اختیار کو ٹھکرایا اور اپنی زمینوں پر لوٹ گئے۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پولٹیکل سائنٹسٹ، مائیکل کورن فیلڈ کا کہنا ہے کہ پرامن انتقال اقتدار کسی قوم کی سیاسی صحت میں بہتری لاتا ہے۔
امریکہ منڈیلا واشنگٹن فیلو شپس کے ذریعے جنوبی افریقہ کے لیڈر کے ورثے کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ اِس پروگرام کے تحت نوجوان افریقی لیڈروں کو انتظامی قیادت کی جامع تربیت، میل ملاپ پیدا کرنے، اور صلاحیتیں بڑہانے کی خاطر امریکہ لایا جاتا ہے۔ اِس پروگرام کا اختتام واشنگٹن میں صدارتی کانفرنس پر ہوتا ہے۔
یہ مضمون اس سے قبل انگریزی میں 27 مئی 2015 کو شائع کیا جا چکا ہے۔