Young boy gesturing in front of picture of Nelson Mandela gesturing (© Ben Curtis/AP Images)
جنوبی افریقہ کے شہر پریٹوریا میں ایک بچہ 2013ء میں نیلسن منڈیلا کی تصویر کے سامنا کھڑا ہے۔ (© Ben Curtis/AP Images)

جولائی میں نیلسن منڈیلا کا صد سالہ جشن ولادت منایا جا رہا ہے۔ اُن کی وفات کے لگ بھگ پانچ سال بعد بھی دنیا بھر کے لوگ اس بات پر غور کررہے ہیں کہ نسلی امتیاز کی مخالف نوبیل انعام یافتہ یہ شخصیت ان کے لیے کیا معانی رکھتی ہے۔

چند ایک لوگوں سے ملیے اور دیکھیے کہ منڈیلا کی تعلیمات وقت گزرنے کے باوجود ابھی تک کیسے زندہ وجاوید ہیں۔

‘ طاقتور ترین ہتھیار: تعلیم’

واٹکنز ایلیمنٹری سکول امریکی کانگریس سے چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سرکاری سکول میں طلبا کی اکثریت افریقی النسل امریکی طالب علموں کی ہے۔ اس سکول میں نئی نسل کو نیلسن منڈیلا کی تعلیمات سے روشناس کرانے کی ذمہ داری رشیدہ گرین کے کندھوں پر ہے۔ رشیدہ پانچویں جماعت کو پڑھائی لکھائی سکھانے کے علاوہ معاشرتی علوم کا مضمون بھی پڑھاتی ہیں۔

Rashida Green (© Moshe Zusman/State Dept.)
ٹیچر رشیدہ گرین واشنگٹن میں۔ (© Moshe Zusman/State Dept.)

41 سالہ گرین نے اپنے ملٹی میڈیا شہری حقوق کے یونٹ کے دو ہفتے نیلسن منڈیلا کی زندگی کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔

وہ نیلسن منڈیلا کے ساتھ خود کو اس وجہ سے جوڑتی ہیں کیونکہ وہ ریاست مسس سیپی میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں۔ اس ریاست میں نسلی ہنگامہ آرائی کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ وہ اپنے طلباء کو نسلی امتیاز پڑھانے کے لیے اس کا تقابل اُن غیر آئینی جم کرو قوانین سے کرتی ہیں جن کے تحت دہائیوں تک عوامی مقامات کو امریکہ میں سفید فام اور سیاہ فام افراد کی رنگت کی بنیاد پر مختص کیا جاتا رہا۔

گرین کی کلاس کے طلبا نیلسن منڈیلا کی زندگی پر بنی ویڈیوز دیکھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی زندگی پر “آزادی کی طویل  مسافت” اور “نیلسن منڈیلا کون تھے؟” کے عنوانات سے لکھی گئیں دو کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد طلبا ایک رپورٹ لکھتے ہیں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ کس طرح  تبدیلی لا سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں، “میرے یہ [طلبا] دنیا تبدیل لانے والے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ یہ ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ نیلسن منڈیلا ان کے لیے  ایک عظیم مثال اور ایک متاثر کن شخصیت ہیں … اور یہ (جاننا) کہ تعلیم کی مدد سے آپ دنیا کو بدل سکتے ہیں۔”

“بہت کچھ ہے جو ہمیں متحد کرتا ہے”

2008ء سے جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا میوزیم کے نوجوان طلبا کا ایک گروپ ہولوکاسٹ (یہودیوں کی نسل کشی) سے متعلق جاننے کے لیے ہر سال جرمنی جاتا ہے۔ وائی ایم سی اے یعنی ینگ مینز کرسچین ایسوسی ایشن جرمنی میں 2005ء سے لے کر 2015ء تک کام کرنے والی اینکا جوہو نے اس دورے کو شروع کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ طلباء جرمنی میں منعقد کیے جانے والے ایک یوتھ کیمپ میں تاریخ کے بارے میں سیکھتے ہیں۔ ایسوسی ایشن یہ کیمپ اپنے اتحادیوں اور دیگر وائی ایم سی ایز کے ساتھ مل کر چلاتی ہے۔ اس کیمپ میں اسرائیل، بیلاروس، ہالینڈ، پولینڈ، سلوواکیہ، روس، لیتھوینیا اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے نوجوان شرکت کرتے ہیں۔

جوہو یہ بھی چاہتی تھیں کہ یورپ کے لوگ  نسلی امتیاز سے آگاہی حاصل کریں۔ لہذا 2012ء میں ایسوسی ایشن یعنی وائی ایم سی اے اور میوزیم نے مل کر جنوبی افریقہ کے ایک دورے کا اہتمام کیا تاکہ لوگ 1948 سے لے کر 1994 تک روا رکھے جانے والے نسلی امتیاز کے قانون کے بارے میں جان سکیں۔ گروپ کے شرکاء نے ان لوگوں کے مصدقہ احوال سنے جنہیں روبن آئی لینڈ میں قید رکھا گیا تھا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر نیلسن منڈیلا بھی 27 برس تک قید رہے۔

جوہو کہتی ہیں، “ہم محض جنگ عظیم دوم اور ہولوکاسٹ اور یورپ کے متعلق ہی بات نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ نسلی امتیاز کے بارے میں بھی بات کی جائے اور اس کے اثرات کو سمجھا جائے۔” 31 سالہ جوہو آج کل مونٹریال میں رہائش پذیر ہیں اور “پاور ٹو چینج منسٹریز” نامی ایک مذہبی ادارے میں کام کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “بہت کچھ ہے جو ہمیں متحد کرتا ہےجیسے کہ مشترکہ امیدیں اور ایک جیسے خواب … اور ہمارا کثیرالثقافتی لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں سے لطف اندوز ہونا۔”

امریکی سفارت کار کے لیے ‘ امید کا چراغ’

Alvin Murphy (© Moshe Zusman/State Dept.)
ایلون مرفی محکمہ خارجہ میں۔ (© Moshe Zusman/State Dept.)

1990 میں بطور ٹیلیویژن پروڈیوسر ایلون مرفی کو جو اولین ذمہ داریاں سونپیں گئیں اُن میں سے ایک نیلسن منڈیلا کا واشنگٹن کا دورہ بھی تھا۔ مرفی کے لیے منڈیلا ایک طویل عرصے تک “امید کا چراغ” رہے۔

مرفی بتاتے ہیں، “میں جنوب میں پلا بڑھا، اورشمالی کیرولائنا میں ایک سیاہ فام نوجوان کی حیثیت سے مجھے بھی کئی بار نسلی امتیاز، تعصب اور علیحدگی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں سفید فاموں کے زیر استعمال نلکوں سے پانی نہیں پینے دیا جاتا تھا، ہمیں کئی ریستورانوں میں کھانے کی اجازت نہیں ہوا کرتی تھی، حتٰی کہ ہمیں کئی ایک علاقوں میں رہنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی تھی۔” انہیں ابھی بھی یاد ہے کہ وہ قریبی کھیتوں سے کپاس چنا کرتے تھے تاکہ کچھ اضافی آٓمدن ہو سکے اور وہ اپنے خاندان کی مدد کر سکیں۔

مرفی کہتے ہیں کہ انہوں نے منڈیلا سے “منفی جذبات کی جانب کھچے جانے یا نفرت بھرے رویوں، انتقام یا الزام تراشی کی بجائے اعلٰی اخلاقی رویہ اپنانے کی اہمیت” سیکھی۔

آج کل مرفی امریکی محکمہ خارجہ میں افریقہ سے متعلق ایک ماہر پالیسی افسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ امریکی محکمہ خارجہ کے منڈیلا واشنگٹن فیلو شپ پروگرام کے ذریعے افریقہ کے مستقبل کے قائدین سے ملتے رہتے ہیں۔ چھ ہفتوں پر مشتمل اس پروگرام کے دوران ہزاروں نوجوان افریقیوں کو قائدانہ تربیت اور پیشہ ورانہ ترقی کے امور سکھائے جاتے ہیں۔

مرفی کے بقول” انہیں منڈیلا سے سیکھے گئے اسباق کو منڈیلا واشنگٹن فیلوز کو سکھانے کا موقع ہر سال ملتا ہے۔” منڈیلا کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا، “منڈیلا نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کے رکھ  دی۔”

یہ مضمون فری لانس مصنف لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔