جیکلن یُون، بنگ ہیمٹن یونیورسٹی میں سالِ دوئم کی طالبہ ہیں۔ وہ طبی خدمت کرنے والی مشنری بننا چاہتی ہیں۔ وہ ترکی زبان بھی سیکھ رہی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، “[مجھے امید ہے] کہ شاید میں اپنے مریضوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں اپنی ترکی زبان کی صلاحیتوں کا استعمال کر سکوں۔
وہ ریاست نیو یارک کے بالائی حصے میں واقع بِنگ ہیمٹن یونیورسٹی کے اُن کئی ایک طالب علموں میں شامل ہیں جو یونیورسٹی کے عثمانی اور ترک مطالعات کے ایک وسعت پذیر پروگرام سے مستفید ہو رہی ہیں۔ نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی اور ترک حکومت کی طویل مدتی امداد کی وجہ سے اس پروگرام کو وسعت دے کر اس میں زبان اور ثقافتی نصابوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔
لاس اینجلیس میں پرورش پانے والی یُون کہتی ہیں، “آج وہاں پر پائے جانے والی ثقافت کو سمجھنا پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے۔”
اس یونیورسٹی کی عثمانی اور ترک مطالعات کی شہرت 1980 کی دہائی سے چلی آ رہی ہے۔ عثمانی تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے پروگرام کے شریک ڈائریکٹر، کینٹ شُل کہتے ہیں، “گریجوایٹ پروگرام حقیقی معنوں میں بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے اور جو کچھ ہم اب کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم انڈرگریجوایٹ اور دیگر کئی ایک دوسرے پروگراموں کی ابتدا کر رہے ہیں۔”
بِنگ ہیمٹن یونیورسٹی 2000ء سے ڈبل ڈگریوں کا پروگرام بھی چلا رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ترک طلبا کو دو سال کسی ترک یونیورسٹی اور دو سال بِنگ ہیمٹن یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس طرح گریجوایٹ ہونے والے طلبا کو دو یونیورسٹیوں سے ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ اس پروگرام کی سرپرستی نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی اور اعلٰی تعلیم کی ترک کونسل کرتی ہے۔
بِنگ ہیمٹن میں ترک زبان اور ثقافتی کورس پڑھانے والے استاد، گریگری کی کہتے ہیں، “ان پروگراموں کی وجہ سے کیمپس پر امریکی طلبا اور ترک طلبا کے درمیان روابط مضبوط ہوتے ہیں۔”
‘اچھی دوستیوں’ کی تخلیق
شُل کہتے ہیں کہ بِنگ ہیمٹن میں تقریباً 400 ترک طالب علم پڑھتے ہیں اور “وہ ہمارے کیمپس کے لیے بہت کچھ لے کر آتے ہیں۔” امریکی طلبا کو اپنے ترک ساتھیوں کے ساتھ ملنے جلنے اور ان سے سیکھنے کے مواقعے “بہتر شہری بناتے ہیں۔”
ترک ثقافت سے متعلق کلاسیں خاص طور پر مقبول ہیں۔ پروفیسر کی کا کہنا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی کلاسوں میں امریکہ، ترکی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ملے جلے طالب علم ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ طلبا کے تنوع سے ہر ایک کو فائدہ پہنچتا ہے اور “میں نے اُنہیں بہت اچھی دوستیاں اور مطالعاتی تعلقات بناتے ہوئے دیکھا ہے۔”
یُون اس بات سے متفق ہیں اور کہتی ہیں کہ انہوں نے ترک طلبا سے اپنی دوستی سے متاثر ہو کر اُن کی ثقافت کے بارے میں مزید جاننے اور ترکی جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
شُل کہتے ہیں کہ ترک مطالعات “پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہیں۔ ترکی کا وجود خلا میں نہیں ہے۔ یہ ایک بہت اہم سیاسی و جغرافیائی خطے میں واقع ہے اور دنیا بھر کے اتحادوں کا ایک بہت اہم رکن ہے۔”