سمندر میں بحری جہاز کے اوپر ایک فارمیشن کی شکل میں پرواز کرتے ہوئے طیارے (© Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images)
6 جون کو بحیرہ بالٹک میں "بال ٹاپس 22" نامی فوجی مشقوں کے دوران مختلف ممالک کے طیارے امریکی بحریہ کے "یو ایس ایس کیئرسارج' نامی بحری جہاز کے اوپر پرواز کر رہے ہیں۔ 29-30 جون کو میڈرڈ میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس سے قبل ہونے والی اِن مشقوں کی قیادت یورپ اور افریقہ میں یو ایس نیول فورسز اور نیول سٹرائکنگ اینڈ سپورٹ فورسز نیٹو نے کی۔ (© Jonathan Nackstrand/AFP/Getty Images)

امریکہ اور اس کے ‘ ٹرانس اٹلانٹک’ [بحر اوقیانوس کے آرپار] کے اتحادیوں نے نیٹو کے مضبوط اتحاد کو یقینی بنانے کی خاطر مستقبل کے  ایک جرائتمندانہ تصور پر اتفاق کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے میڈرڈ میں 29-30 جون کو ہونے والے نیٹو کے اِس سربراہی اجلاس کو ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے لیے ایک تاریخی لمحہ” قرار دیا۔

آسٹریلیا، جاپان، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا سمیت ایشیا کے شراکت کار ممالک کے رہنماؤں نے پہلی مرتبہ اس تقریب میں شرکت کی۔

 جو بائیڈن اور دیگر عہدیدار میز کے سامنے اور میز کے پیچھے رکھی کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ پس منظر میں جھنڈے دکھائی دے رہے ہیں (© Susan Walsh/AP Images)
29 جون کو میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کے دوران صدر بائیڈن [درمیان میں]، جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول[بائیں]، اور جاپان کے وزیر اعظم فومیو کشیدا [دائیں] سے ملاقات کر رہے ہیں۔ بائیڈن کے پیچھے [بائیں سے دائیں]، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بیٹھے ہیں۔ (© Susan Walsh/AP Images)
بائیڈن نے کہا، “ہم انتہائی واضح پیغام بھیج رہے ہیں” کہ نیٹو مضبوط [اور] متحد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سربراہی اجلاس کے دوران اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں “ہماری اجتماعی قوتت میں مزید اضافہ ہوگا۔”

 

نیٹو اتحاد ایک ارب افراد کی نمائندگی کرتا ہے اور 1997 میں 15 ممبران کے مقابلے میں آج اس کے ممبران کی تعداد دوگنا بڑھکر 30 ہو گئی ہے۔ یہ اتحاد اُن اقوام کے لیے دروازہ کھلا رکھتا ہے جو یورو-اٹلانٹک کی مشترکہ اجتماعی سکیورٹی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اِس اجلاس کے دوران فن لینڈ اور سویڈن کو باضابطہ طور پر اتحاد میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔

بائیڈن نے کہا، ” ہم [آج] پہلے سے کہیں زیادہ متحد ہیں۔”

قانونی بنیادوں پر مبنی نظام کا تحفظ

یہ سربراہی اجلاس روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی یوکرین کے خلاف بلا اشتعال جنگ کے پانچ ماہ بعد ہو رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ یوکرین پر روس کا مزید حملہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے یورپ میں جارحیت کا بدترین فعل ہے۔

بلنکن نے 29 جون کو میڈرڈ میں نیٹو کے ایک عوامی فورم میں کہا، “ہم نے جو دیکھا ہے وہ پورے یورپ میں اور[یورپ سے] باہر اس بات کا اعتراف ہے کہ یوکرین کے خلاف جارحیت بعض اُن انتہائی بنیادی اصولوں کے خلاف بھی جارحیت ہے جو بین الاقوامی نظام کی اساس ہیں۔”

بلنکن نے اِس اتحاد پر رکن ممالک کو اپنے دفاع کی اجازت دینے پر زور دیا۔ معاہدہِ  واشنگٹن اس اتحاد کی بنیادی  دستاویز ہے۔ اس معاہدے کی شق 5 کہتی ہے کہ ایک رکن پر حملہ سب پر حملہ تصور ہوگا۔ آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکہ کا عزم آہنی ہے۔

 بڑے ہال میں موجود لوگوں سے ایک بڑی سکرین پر خطاب کرتے ہوئے ولوڈیمیر زیلنسکی (© Gabriel Bouys/AFP/Getty Images)ہسپانوی خبر رساں ایجنسی ای ایف ای کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے صدر ولوڈیمیر زیلنسکی نے 29 جون کو میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ، “ایک انتہائی جارحانہ کریملن کی موجودگی میں دنیا کو ایک انتہائی جرائتمند اتحاد کی ضرورت ہے۔” (© Gabriel Bouys/AFP/Getty Images)بائیڈن نے 29 جون کو کہا، “ایک ایسے لمحے میں ہم باہر نکل رہے ہیں جب پیوٹن نے یورپ میں امن کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے اور قوانین پر مبنی نظام، امریکہ اور ہمارے اتحادیوں پر حملہ کیا ہے۔”

سربراہی اجلاس کے اختتام پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹن برگ نے کہا، “ہم نے میڈرڈ میں جو فیصلے کیے ہیں وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہمارا اتحاد امن کے تحفظ، تنازعات کی روک تھام، اور ہمارے لوگوں اور ہماری اقدار کا تحفظ جاری رکھے۔ یورپ اور شمالی امریکہ، نیٹو میں ایک ساتھ کھڑے ہیں۔”