نیٹو کا سبراہی اجلاس: متحدہ اتحادی دفاعی اخراجات میں اضافے پر رضامند

Political leaders staring up into sky (© Markus Schreiber/AP Images)
نیٹو کے سربراہ جینز سٹولٹن برگ، (درمیان میں) صدر ٹرمپ اور دیگر لیڈر، 12 جولائی کو فضا میں اڑتے ہوئے ایک طیارے کو دیکھ رہے ہیں۔ (© Markus Schreiber/AP Images)

صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ دو روزہ اُس سربراہی اجلاس کے بعد نیٹو کا اتحاد پہلے کے مقابلے میں “زیادہ مضبوط ہوا ہے جس میں امن اور سلامتی کو لاحق مشترکہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اتحادی، دفاعی اخراجات میں اضافے پر رضامند ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے 12 جولائی کو برسلز میں اجلاس کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ہر رکن ملک “اپنے حصے کے اخراجات میں اچھا خاصا اضافہ کرنے پر رضامند ہو گیا ہے۔ وہ یہ اضافہ اُن سطحوں پر کرنے جا رہے ہیں جس کا انہوں نے پہلے سوچا بھی نہیں تھا۔”

صدر نے جو قیام امن کے بوجھ کو زیادہ منصفانہ طور پر بانٹنے کے لیے نیٹو کے دیگر 28 رکن ممالک پر زور دیتے رہے ہیں کہا، “اب ہم بہت خوش ہیں اور ہمارا نیٹو [کا اتحاد] بہت طاقتور، بہت مضبوط ہو گیا ہے۔”

صدر نے کہا، “میرا خیال ہے کہ نیٹو بہت اہم ہے، کبھی بھی وجود میں آنے والا یہ ایک عظیم [اتحاد] ہے۔ مگر امریکہ سے اتنے زیادہ اخراجات پورے کرنے کی توقع کرنا منصفانہ بات نہ تھی۔

Donald Trump speaking at a lectern (© Marlene Awaad/Bloomberg/Getty Images)
12 جولائی کو برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں سربراہی اجلاس کے اختتام پر صدر ٹرمپ نے کہا، “میرا اولین مقصد دنیا بھر میں امن ہے۔” (© Marlene Awaad/Bloomberg/Getty Images)

شروع میں مخاصمانہ سویت یونین سے نمٹنے کی خاطر 1949ء میں ایک درجن جمہوریتوں نے نیٹو کا اتحاد تشکیل دیا اور اجتماعی دفاع کا عہد کیا۔ 1989ء میں دیوارِ برلن کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوویت بلاک کے بہت سے ممالک بھی نیٹو میں شامل ہوگئے۔

برسلز کے دور روزہ سربراہی اجلاس کے بعد، اتحاد نے یوکرین اور جارجیا کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے حق میں حمایت کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں ممالک نیٹو میں شامل ہونے اور روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اتحادی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان، عراق اور دیگر مقامات پر اتحادی کاروائیوں میں مدد کر رہے ہیں۔

29 ممالک کے لیڈروں نے متفقہ طور پر سربراہی اجلاس کا اعلامیہ منظور کیا جس میں “خود مختاری، مشترکہ مقاصد اور ذمہ داریوں کے بوجھ کی منصفانہ تقسیم کی بنیادوں پر شانہ بشانہ کھڑے ہوکر اور اکٹھا مل کر عملی اقدامات اٹھانے کے” عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔

اتحادیوں نے روس کی جانب سے 2014ء میں کریمیا کو غیرقانونی طور پر اپنے ملک میں شامل کرنے کی مذمت کی اور روس سے یوکرین سے اپنے فوجی دستے نکالنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے نیٹو کی تیاری کا ایک ایسا پروگرام شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا جس کے تحت 30 دنوں یا اس سے کم مدت کی تیاری سے 30 اضافی بحری جہاز، 30 بٹالین فوج اور فضائیہ کے 30 سکواڈرنوں کو تعینات کیا جائے گا۔ مزید برآں روسی جارحیت کے مقابلے کی خاطر اتحاد پہلے سے ہی بالٹک کی ریاستوں اور پولینڈ میں جنگ کے لیے تیار چار بٹالین فوج تعینات کر چکا ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد یورپی اتحادی اور کینیڈا دفاعی اخراجات میں 41 ارب ڈالر لگا چکے ہیں۔ سٹولٹن برگ نے کہا، “نیٹو یورپ کے لیے اچھا ہے اور یہ شمالی امریکہ کے لیے بھی اچھا ہے۔ دو عالمی جنگیں اور ایک سرد جنگ نے ہم پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اکیلے اکیلے ہونے کی بجائے اکٹھا رہتے ہوئے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔”

ٹرمپ نے سربراہی اجلاس کو ” دو زبردست دن” قرار دیا۔ صدر نے کہا، “… آخر میں سب کچھ اچھا ہوگیا۔”