25 مئی کو نیٹو کے ہیڈکوارٹر برسلز میں، نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر سے لیے گئے ایک ٹیڑھے میڑھے لوہے کے شہتیر کے برابرکھڑے ہو کر خطاب کرتے ہوئے، صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے یہ عہد کیا کہ اکٹھے مل کر نیٹو کے اتحادی، دہشت گردی کی “وحشتناک بدی” کو مٹا دیں گے۔

اتحادیوں کو اپنی مجموعی قومی آمدنی کا 2 فیصد دفاع کے لیے  وقف کرنے کے اُن کے وعدوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے، صدر نے کہا کہ رقومات کی مکمل ادائیگی اتحاد کو اور زیادہ مضبوط  بنائے گی اور دہشت گردی کو روکنے کے لیے اِس اتحاد کو بہتر طور پر تیار کرے گی۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ اُن کے مشرق وسطٰی اور یورپ کے حالیہ دوروں اور ملاقاتوں نے انہیں “یہ نئی امید دلائی ہے کہ بہت سے مذاہب کے لوگ تمام انسانیت کے لیے مشترکہ خطرے یعنی دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے متحد ہوسکتے ہیں۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کہ ایسا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نیٹو کے تمام اتحادی اپنا منصفانہ حصہ ادا کریں۔

صدر ٹرمپ کی مکمل تقریر کا متن ذیل میں دیا جا رہا ہے۔

“صدر ٹرمپ کی آرٹیکل 5 اور دیوار برلن کی یادگاروں کی تقریب رونمائی میں تقریر

نیٹو ہیڈکوارٹر

برسلز، بیلجیئم

سیکرٹری سٹولٹنبرگ آپ کا شکریہ۔ چانسلر میرکل، آپ کا شکریہ۔ دیگر سربراہان مملکت و سربراہان حکومت، میں دنیا بھر میں سلامتی اور امن کو فروغ دینے والے اتحاد کے ارکان کے ساتھ  یہاں موجود ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہوں۔

وزیراعظم مے، آج یہاں پر موجود تمام اقوام کی نمائندگی کرنے والے آپ کے غم میں شریک ہیں اور آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم مانچسٹر میں ہونے والے بیہمانہ حملے کے متاثرین اور اُن کے خاندانوں کے لیے خاموشی کا ایک لمحہ اختیار کریں۔ (خاموشی کا ایک لمحہ اختیار کیا گیا۔) شکریہ۔ ایک وحشتناک واقعہ۔

اِس تقریب کا تعلق یاد اور عزم، دونوں سے ہے۔ ہم 11 ستمبر 2001 کو دہشت گردوں کے ہاتھوں تقریباً 3,000 بےگناہوں کے  بیدردی سے قتل ہونے والوں کی یاد اور سوگ مناتے ہیں۔ نیٹو کے ہمارے اتحادیوں نے نیٹو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اجتماعی دفاع کی ذمہ داریوں کے آرٹیکل 5 کو بروئے کار لاتے ہوئے، تیزی سے اور فیصلہ کن انداز سے جواب دیا۔

برطانیہ میں مانچسٹر میں ہونے والا حالیہ حملہ اُس شر کی پستیوں کا عملی مظاہرہ ہے جس کا ہمیں دہشت گردی کی شکل میں سامنا ہے۔ موسیقی کے ایک کنسرٹ میں شریک چھوٹی چھوٹی بے گناہ لڑکیوں اور دیگربہت سے لوگوں کو خوفناک طریقے سے قتل اور بری طرح زخمی کیا گیا۔  بے شمار صلاحیتوں کی حامل ان خوبصورت زندگیوں کو اِن کے خاندانوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھین لیا گیا۔ یہ ہماری تہذیب پر ایک سفاک اور شیطانی حملہ تھا۔

تمام لوگوں کو جنہیں زندگی عزیز ہے، اِن قاتلوں اور انتہاپسندوں – اور، ہاں، نامرادوں کو ڈھونڈنے، بے نقاب کرنے اور ختم کرنے کے لیے، متحد ہو جانا چاہیے۔ یہ نامراد ہیں۔ ہمارے معاشروں میں جہاں کہیں بھی اِن کا وجود ہے ہمیں اِنہیں وہاں سے مار بھگانا چاہیے اور کبھی بھی اِنہیں واپس آنے کی اجازت نہیں دینا چاہیے۔

دہشت گردی کی بیدخلی کی یہ اپیل وہی پیغام ہے جو میں سعودی عرب کی میزبانی میں ہونے والے پورے خطے کے عرب اور مسلمان راہنماؤں کے اجتماع میں لے کر گیا تھا۔ وہاں میں نے شاہ سلمان کے ساتھ وقت گزارا۔ وہ ایک ایسے دانا آدمی ہیں جو چیزوں کو تیزی سے بہتر ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مشرق وسطٰی کے راہنما اس بے مثال کانفرنس میں اُس  بنیاد پرست نظریے کی فنڈنگ کو روکنے پر متفق ہوگئے ہیں جس کا نتیجہ دنیا بھر میں خوفناک دہشت گردی کی صورت میں نکلتا ہے۔

میرے دوروں اور ملاقاتوں نے مجھے یہ نئی امید دلائی ہے کہ بہت سے مذاہب کے لوگ تمام انسانیت کے لیے مشترکہ خطرے یعنی دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے متحد ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی کو فوری طور پر روکنا چاہیے ورنہ وہ وحشتناکی ہمیشہ جاری رہے گی جو آپ مانچسٹر اور بہت ساری دوسری جگہوں پر دیکھ  چکے ہیں۔ آپ کے سامنے ہزارہا لوگ مختلف ممالک میں ہمارے ہاں چلے آ رہے ہیں اور ہر جگہ پھیل رہے ہیں۔ بہت سی صورتوں میں تو ہمیں یہ اندازہ بالکل نہیں ہوتا کہ وہ کون ہیں۔  ہمیں سختی سے کام لینا چاہیے۔ ہمیں مضبوط ہونا چاہیے۔ اور ہمیں چوکس ہونا چاہیے۔

مستقبل کی نیٹو کی توجہ کا ایک بہت بڑا حصہ دہشت گردی اور امیگریشن کے ساتھ ساتھ روس اور نیٹو کی مشرقی اور جنوبی سرحدوں کی جانب سے درپیش خطرات پر مرکوز کیا جانا چاہیے۔ سکیورٹی کے یہ سنگین خدشات ہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر میں نے سیکرٹری سٹولٹنبرگ اور اتحاد کے اراکین کے ساتھ براہ راست اور کھل کر بات کی ہے۔ میں نے اںہیں بتایا ہے کہ نیٹو کے ارکان کو اپنے منصفانہ حصے کا کام کرنا اور اپنی مالی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہییں کیونکہ 28 میں سے 23 ارکان اب بھی وہ رقم ادا نہیں کر رہے جو اُن کو ادا کرنا چاہیے اور جو وہ اپنے دفاع کے لیے ادا کرنے کے پابند ہیں۔

یہ امریکہ کے عوام اور ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اور اِن میں سے بہت سے ممالک کے ذمہ گزشتہ برسوں سے تعلق رکھنے والی بڑی بڑی رقومات واجب الادا ہیں کیونکہ وہ اِن برسوں میں ادائیگیاں نہیں کرتے رہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں اکیلے امریکہ نے دفاع پر نیٹو کے دیگر تمام ممالک کے مجموعی خرچے سے زیادہ پیسہ خرچ کیا ہے۔ اگر گزشتہ برس نیٹو کے تمام اراکین اپنی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد دفاع پر خرچ کرتے تو ہمارے پاس اپنے اجتماعی دفاع کے لیے اور نیٹو کے اضافی مالی ذخائر میں ڈالنے کے لیے، 119 ارب ڈالر کی اضافی رقم ہوتی۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنا چاہیے کہ مستقل طور پر کم ادائیگیوں اور بڑہتے ہوئے خطرات کی موجودگی میں حتٰی کہ مجموعی قومی پیداوار کا 2 فیصد حصہ بھی، افواج کو جدید بنانے، اُن کی تیاری، اور اُن کی تعداد میں موجود فرق کو دور کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ہم نے بہت سارے ضائع ہوجانے والے برسوں سے پیدا ہونے والی کمی کو پورا کرنا ہے۔ آج کے انہتائی حقیقی اور شدید خطرات کا سامنا کرنے کی خاطر، دو فیصد شرح کم از کم ہے۔ اگر نیٹو ممالک اپنے حصے کی پوری رقومات ادا کرتے تو نیٹو آج کی نسبت، بالخصوص دہشت گردی کے خطرے کے خلاف، اور بھی زیادہ مضبوط ہوتی۔

میں نیویارک میں واقع 9/11 کی یادگار اور میوزیم کی، نارتھ ٹاورکے بچ جانے والے اس ٹکڑے اور چانسلر میرکل اور جرمن عوام کی، دیوار برلن کا یہ حصہ بطور عطیہ دینے پر، تحسین کرنا چاہتا ہوں۔ اِن دو نوادرات کا نیٹو کے نئے ہیڈکوارٹر کے اتنے قریب یکجا ہونا، یقینی طور پر موزوں ہے۔ اور میں نے کبھی، ایک مرتبہ بھی نہیں پوچھا کہ نیٹو کے نئے ہیڈکوارٹر پر کتنی لاگت آئی ہے۔ میں ایسا کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ مگر یہ خوبصورت ہے۔

اِس اتحاد کی تاریخ اور نیکی اور بدی کی ابدی لڑائی میں، دونوں واقعات محور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک جانب، ہمارے آدرشوں کی لاکھوں کروڑوں لوگوں پر ظلم پر تلے ہوئے ایک مطلق العنان کمیونسٹ نظریے پر جیت کا ثبوت؛ دوسری جانب ایک ایسی سفاک بدی کی یاد دہانی، جو اب بھی دنیا میں موجود ہے اور جس کو ہرصورت ہمیں ایک گروپ اور ایک دنیا کی حیثیت سے سامنا کرنا اور شکست دینا ہے۔

دھات کا ٹیڑھا میڑھا یہ ٹکڑا ہمیں صرف یہ ہی یاد نہیں کراتا کہ ہم نے کیا کھویا، بلکہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے  کہ کیا چیز ہمیشہ قائم رہتی ہے –  ہمارے لوگوں کی جراْت، ہمارے عزم کی قوت، اور وہ وعدے جو ہمیں اکائی کی شکل میں باندھ دیتے ہیں۔

ہم اُن جانوں کو کبھی نہیں بھولیں گے جو ہم نے کھو دی ہیں۔ ہم اُن دوستوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے جو ہمارے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اور ہم دہشت گردی کو شکست دینے اور پائیدار سلامتی، خوشحالی اور امن  کے حصول کے لیے اپنے مصمم ارادے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

آپ کا بہت شکریہ۔ یہاں آنا ایک عظیم اعزاز کی بات ہے۔ شکریہ”