نیٹو کے ساتھ امریکی عزم ‘آہنی’ ہے: نائب صدر ہیرس

نائب صدر کملا ہیرس اور پولش صدر آندرے ڈُوڈا ڈائس کے پیچھے کھڑے ہیں (© Saul Loeb/AP Images)
یوکرین اور نیٹو اتحادیوں کے لیے اپنی حمایت کے بارے میں وارسا میں ایک مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور پولینڈ کے صدر آندرے ڈُوڈا اخباری نمائندوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔ (© Saul Loeb/AP Images)

نائب صدر کملا ہیرس نے یوکرین کے خلاف روس کی بلاجواز اور وحشیانہ جنگ کے مقابلہ میں نیٹو اتحاد کے لیے امریکہ کے غیرمتزلزل عزم کا اعادہ کیا ہے۔

9 تا 11 مارچ تک پولینڈ اور رومانیہ کے دورے میں، نائب صدر نے پورے یوکرین میں سکولوں، ہسپتالوں اور گھروں پر روس کی بمباری سے جان بچا کر بھاگنے والے لاکھوں افراد کی مدد کرنے کی خاطر انسانی بنیادوں پر دی جانے والی 53 ملین ڈالر کی نئی اضافی امریکی امداد کا اعلان بھی کیا۔

نائب صدر نے 10 مارچ کو وارسا میں یوکرین چھوڑنے پر مجبور کیے جانے والے افراد سے ملاقات کے دوران کہا،  “آپ تنہا نہیں ہیں۔ ہم، پوری دنیا [کے لوگ صورت حال] پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے لوگ اپنی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح [آپ کی] مدد کر سکتے ہیں۔”

نیٹو کا اتحاد

ہیریس نے کہا کہ آرٹیکل 5 کے ساتھ امریکی عزم “آہنی” ہے جس کے مطابق نیٹو کے کسی ایک رکن پر حملہ اس [نیٹو کے] سب [اراکین] کے خلاف حملہ ہوتا ہے۔

ہیریس نے 10 مارچ کو پولینڈ کے صدر آندرے  ڈُوڈا کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران کہا، “امریکہ نیٹو کے علاقے کے ہر انچ کے دفاع کے لیے تیار کھڑا ہے۔”

نائب صدر نے 10 مارچ کو پولینڈ کے وزیر اعظم مٹیوش موریسکی اور اگلے دن رومانیہ کے صدر کلاؤس آئیوہنیس سے بخارسٹ میں ملاقات کی۔

 رومانیہ کے صدر کلاؤس آئیوہنیس، نائب صدر ہیرس کے ساتھ مصافحہ کر رہے ہیں (© Saul Loeb/AP Images)
نائب صدر ہیرس رومانیہ کے کوٹروچینی پیلس میں ملاقات سے قبل رومانیہ کے صدر کلاؤس آئیوہنیس سے مصافحہ کر رہی ہیں۔ (© Saul Loeb/AP Images)

اِن ملاقاتوں کے علاوہ وارسا میں ہیرس نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو سے  بھی ملاقات کی۔ اس ملاقات کا مقصد نیٹو اتحاد کی طاقت کا اعادہ کرنے اور اس امر پر تبادلہ خیال کرنا تھا کہ نیٹو کے رکن  ممالک یوکرین کی حمایت کیسے جاری رکھیں گے۔

پناہ گزینوں کی مدد

ہیرس نے کہا کہ امریکہ یوکرین کے لوگوں کی ضروریات کے پیش نظر انسانی بنیادوں پر اضافی امداد فراہم کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ انہوں نے ” اُس اخلاقی غم و غصے کا خصوصی ذکر کیا جو تمام مہذب قوموں میں ایک ایسے وقت میں پایا جاتا ہے جب وہ معصوم مردوں، عورتوں، بچوں، دادیوں، دادوں کے ساتھ ہونے والے [مظالم] کو دیکھ رہے ہیں۔ [یہ سب لوگ] اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں۔”

پولینڈ اور رومانیہ کی سرحدوں پر واقع یوکرین پر فروری کے آخر میں شروع ہونے والے روسی حملوں کے بعد سے 25 لاکھ سے زیادہ افراد یوکرین چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک انسانی بحران پیدا ہو گیا ہے۔

ہیریس نے پولینڈ اور رومانیہ کے لوگوں کا روس اور بیلاروس کے اختلاف رکھنے والوں اور جلاوطن افراد سمیت، ولاڈیمیر پوٹن کی جنگ کی ہولناکیوں سے بچ کر آنے والے یوکرین کے لوگوں کو کھلے دل اور رحمدلی سے قبول کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ پولینڈ میں 1.5 ملین سے زائد پناہ گزین ہیں جبکہ رومانیہ میں  تقریباً 85,000 پناہ گزین ہیں۔

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے [یو ایس ایڈ] کے ذریعے انسانی بنیادوں پر دی جانے والی اضافی امریکی امداد کے تحت جاری لڑائی سے متاثرہ کمیونٹیوں میں مندرجہ ذیل اشیاء  فراہم کی جائیں گیں:-

  • خوراک
  • پینے کا صاف پانی
  • پناہ گاہیں
  • صحت کی ہنگامی سہولتیں
  • سردی سے محفوظ رکھنے کے انتظامات

انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی اضافی امریکی امداد گزشتہ برس کے دوران یوکرین کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کی امداد کے علاوہ ہے۔

اس کے علاوہ، امریکی کانگریس نے حال ہی میں یوکرین اور یورپی اتحادیوں کی مدد کے لیے 13.6 ارب ڈالر کی فوجی، انسانی اور اقتصادی امداد کی منظوری دی۔ صدر بائیڈن نے 11 مارچ کو اِس امدادی بل پر دستخط کیے۔

 یوکرین کے بارے میں نائب صدر ہیرس کے بیان کے ہمراہ اُن کی تصویر (State Dept./B. Insley)
(State Dept./B. Insley)

نائب صدر نے کہا کہ روس کی حکومت اور بیلاروس میں لوکاشینکا حکومت جیسے اس کے حامیوں کو بین الاقوامی غم و غصے کا باعث بننے والے زچگی کے ہسپتال پر فضائی حملے سمیت، یوکرین میں اپنی گھناؤنی کاروائیوں پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

“مجھے اس میں رتی برابر بھی شک نہیں ہے کہ دنیا کی نظریں اس جنگ پراور روس نے جارحیت اور  مظالم کے حوالے   سے جو کچھ کیا ہے اُس پر لگی ہوئی ہیں۔”

ہیریس کا دورہ امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کے بعد کیا گیا ہے۔ اِن میں ایستونیا، لاتھویا اور لتھوینیا کے رہنماؤں سے گزشتہ ماہ جرمنی میں ہونے والیں ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔