
مشرقِ وسطٰی میں ایک پرانا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے۔ چور حالیہ تصادموں کی وجہ سے پیدا ہونے والی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تاریخی خزینوں کو لوٹ رہے ہیں۔
البتہ آثار قدیمہ کے ماہرین، عجائب گھروں کے منتظمین اور نوادرات کو محفوظ بناے والے ماہرین، کسٹمز اور سرحدی حکام اور نیلام گھروں کے مالکان، ثقافتی نوادرات کی لوٹ کھسوٹ اور سمگلنگ کو روکنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
حال ہی میں، پورے مشرقِ وسطٰی کے نوادرات کا تحفظ کرنے والے ماہرین یہ جاننے کے لیے امریکہ آئے کہ اُن کے امریکی ہم منصب سمگلروں کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی وزارت خارجہ کی جانب سے ترتیب دیئے گئے اپنے اس دورے کے دوران ماہرینِ تعلیم اور سمتھسونین ادارے اور دیگر عجائب گھروں کے ماہرین سے ملاقاتیں کیں۔
جیسا کہ اُن میں سے بہت سوں نے بتایا کہ اُن کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند یہ بات تھی وہ پہلی مرتبہ ایک دوسرے سے ملے اور اُنہوں نے بلیک مارکیٹ میں تجارت کو بند کرنے اور اِن خزینوں کو واپس اُن کے اصلی مقامات پر لوٹانے کے بارے میں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی معلومات کا تبادلہ کیا۔ مصر کی آثار قدیمہ کی وزارت کے عصام شہاب نے کہا، ” میرے لیے اُن کے، بالخصوص ایسے ممالک کے مسائل کے بارے میں [جاننے] کا یہ ایک بہت بڑا موقع ہے جو جنگوں اور تصادموں کے مصائب کا شکار ہیں۔” مصر کی آثار قدیمہ کی وزارت کے فرائض میں مصری فرعونوں کے قدیم مقبروں سے گھرے، جنوبی مصر میں دریائے نیل کے کنارے آباد ‘ لُکسر ‘ شہر میں تحقیق شامل ہے۔

تین ہفتوں پر مشتمل اِس دورے کے پروگرام میں الجزائر، بحرین، مصر، اسرائیل، لبنان، لیبیا، مراکش، تیونس اور متحدہ عرب امارات — اور فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے شرکت کی۔
انہوں نے لوٹی گئیں اشیاء کو امریکہ میں لانے سے روکنے اور ثقافتی ورثے کی حفاظت پر کام کرنے والے وزارت خارجہ اور ہوم لینڈ سکیورٹی کے حکام سے ملاقاتیں کیں۔ عراق اور شام سے درآمدات کو محدود کرنے کے امریکی قوانین سمیت، انہوں نے نفاذِ قانون کے طریقہائے کار سے متعلق معلومات کے بارے میں بھی سنا۔ نیلامی کا کاروبار کرنے والی ‘سودے بی’ نامی کمپنی کے ایک اعلٰی عہدیدار نے نوادرات کے حفاظتی اقدامات پر اظہار خیال کیا۔
انہوں نے واشنگٹن میں سمتھسونین ادارے، نیویارک میں میٹروپولیٹن میوزیم اور ثقافتی ورثوں کی نمائش کرنے والے دیگر اداروں کا دورہ کیا تا کہ یہ جان سکیں کہ اِن اداروں کے مہتمم اپنے ہاں فن پاروں کے ذخیروں کی اصلیت کو کس طرح دستاویزی شکل دیتے ہیں اور فن پاروں کی نمائش کس طرح کی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھا۔ اسرائیل کی قدیم نوادرات کی اتھارٹی کے چوری کی روک تھام کے محکمے میں کام کرنے والے، امیر گانور نے کہا، ” یہ سُن کر اچھا لگتا ہے کہ دوسروں کے مسائل بھی وہی ہیں جو آپ کے ہیں اور یہ اکیلے آپ ہی نہیں جن کو مسائل کا سامنا ہے۔ ہم ایک دوسرے سے نئے طریقے، نئے داوًپیچ سیکھ سکتے ہیں۔”
چور لوٹی گئی اشیاء کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے، کئی سال تک انہیں اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ لبنان کی وزارت ثقافت کے قدیم نوادرات کے ڈائریکٹوریٹ کے، ہند یونس کہتے ہیں کہ جو نوادرات لبنان کی خانہ جنگی کے دوران چرائی گئیں تھیں اُن میں سے کچھ ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصے تک مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیے نہیں لائی گئیں۔

مصر کے قدیم نوادرات کی وزارت کی چرائی گئی نوادرات کی اپنی اصل مقام پر واپسی کے محکمے میں سپروائزر کے طور پر کام کرنے والے، شعبان عبدل جواد نے بتایا کہ گزشتہ سال 500 سے زیادہ [چوری شدہ] نوادرات برآمد کی گئیں۔ انہوں نے بتایا، ” ہم پوری دنیا کے نیلام گھروں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں خود نہ بھی پتہ چلے تو ہر کہیں موجود ہمارے دوست ہمیں بتا دیتے ہیں۔”
پینسلوینیا یونیورسٹی کے میوزیم کے ریسرچ ڈائریکٹر، برائن ڈینیئل نے نیٹ ورکنگ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، ” ثقافتی ورثے کے تحفظ اور نوادرات کی چوری کو روکنے کی کوششیں وسیع شراکت داری کے ذریعے کی جانا چاہیئیں۔ بین الاقوامی تنظیموں، ثقافت کی وزارتوں اور موقعے پر موجود کمیونٹیوں کو ذہن میں رکھیں۔”
انہوں نے آثار قدیمہ کے ماہرین اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اُنہیں پُرزور ترین حامی بننا چاہیے: “اگر یہ ہم نہیں ہوں گے تو پھر کوئی بھی نہ ہوگا۔”
قدیم نوادرات کے ماہرین، ‘ انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام کے تحت امریکہ کے دورے پر آئے۔