امریکی شاعر کارل سینڈ برگ نے ایک بار کہا تھا، ’’شاعری ایک ایسی گونج ہے جو سائے سے رقص کی فرمائش کرتی ہے۔‘‘
حال ہی میں پانچ نوجوانوں کواگلے سال تک اس رقص کی قیادت کرنے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ یہ پانچوں، قومی طالب علم شاعر ہیں اور انہوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنے اعزاز میں منعقد کی جانے والی ایک تقریب میں شرکت کی۔
امریکہ بھر سے طالب علم شاعروں کو منتخب کرنے کے اس پروگرام کا آغاز صدر اوباما اور خاتونِ اول مشیل اوباما نے کیا تھا۔ ہر سال تقریباً70,000 نوجوان اس پروگرام میں شمولیت کے لیے درخواستیں بھیجتے ہیں۔ شاعروں اور فنکاروں کی ایک ٹیم جیتنے والوں کا انتخاب کرتی ہے۔
اس سال کے طالب علم شاعروں سے ملیے:
کیلی فورنیا کی مایا سلامہ ایک لبنانی امریکی ہیں۔ انہوں نے وائٹ ہاؤس کی تقریب میں “Sacrilege Incorporated” یا “بے حرمتی کی کارپوریشن” کے عنوان سے اپنی نظم پڑھکر سنائی۔ مایا نے کہا کہ وہ ایک عرب امریکی کی حیثیت سے اپنے احساسات کا اظہار کرنا چاہتی تھیں۔
جارجیا کی مایا ایشورن ایک بھارتی امریکی ہیں۔ انہوں نے ’’لسانیات‘‘ کے عنوان سے انگریزی میں لکھی گئی اپنی نظم پڑھکر سنائی جس میں انہوں نے امریکی ثقافت کو اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنی بھارتی شناخت سے جزوی طور پر محروم ہونے کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’میں نے یہ احساس ہونے کے بعد یہ نظم کہی تھی کہ میں اپنی مادری زبان سے زیادہ انگریزی بولنے لگی ہوں۔‘‘
الینوائے کی سٹیلا بِنیون کا کہنا ہے کہ ان کا یہ خواب ہے کہ وہ دوسرے طلبا کے ساتھ مل کر کام کریں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ وہ خاص طور پر افریقی امریکی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ یہ محسوس کریں کہ ان کی آواز اہم ہے۔
میری لینڈ کے جوائے ریزبرگ نے کہا کہ وہ بالٹی مور میں شاعری کی ایک ورکشاپ منعقد کرکے یہ ثابت کرنے کی امید لیے ہوئے ہیں کہ بالٹی موراپنے اندر حالیہ ہنگاموں سے کہیں زیادہ خوبیاں سموئے ہوئے ہے۔ انہوں ے کہا، ’’شہر اتنا بٹا ہوا نہیں ہے جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔ آخر ہم بھی عام لوگ ہیں۔‘‘
ٹیکسس کے گوپال رامن نے ’’23 اگست 2005‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم پڑھکر سنائی جس میں کترینہ نامی طوفان کے مثاثرین کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں ڈیلاس مارننگ نیوز کو بتایا، ’’یہ دیکھ کر حقیقی معنوں میں حوصلہ ملا کہ ہمارے ملک کے بڑے لیڈروں میں سے ایک، بچوں کا اور آرٹ کا اور ہمارے مستقبل کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے۔‘‘