مارچ میں سینٹ لوئیس میں لوگ انتخابی مہم کے ایک جلسے میں نعرے لگا رہے ہیں۔ (© AP Images)

18 اور 35 سال کے درمیان عمروں والے امریکیوں کی نسل  کو مِلینیئلز  یعنی “ہزاریئے” کہا جاتا ہے۔ ان کی تعداد اب بےبی بومرز یعنی “کثرتِ اولاد والے” 52 سے 70 سال کی عمر کے امریکیوں کی تعداد سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اور اس حقیقت کی بنیاد پر بعض سیاسی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ 2016 کے صدارتی انتخاب کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ ملینیئلز ووٹ دینے کے لیے آتے ہیں یا نہیں۔

چونکہ ان میں سے تقریباً سب کی عمریں امریکی صدر کے انتخاب میں ووٹ دینے کی ایلیت کی حد یعنی 18 برس ہو چکی ہیں، اس لیے  امریکہ میں ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں ان کا حصہ تقریباً  بےبی بومرز کے برابر ہو گیا ہے۔

پیو ریسرچ سینٹر نے 2016 میں  امریکہ کے مردم شماری کے بیورو کے اعداد و شمار کا جو تجزیہ کیا ہے اس کے مطابق، امریکہ میں 6 کروڑ 92 لاکھ نوجوان یعنی مِلینیئلز  ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔ یہ تعداد تقریباً بے بی بومرز کی تعداد کے برابر ہے۔ پیو کا کہنا ہے کہ ملک کی ووٹ ڈالنے کی اہل آبادی میں ان دونوں نسلوں کا حصہ تقریباً 31 فیصد ہے۔

کیا وہ ووٹ ڈالیں گے؟

گذشتہ انتخابات میں، خاص طور سے اگر مِلینیئلز کا موازنہ دوسری عمر کے گروپوں سے کیا جائے تو یہ  زیادہ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نہیں آئے ۔ پیو کی رپورٹ کے مطابق 2012  کے انتخاب میں، 46 فیصد سے بھی کم نوجوان ووٹروں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ اس کے مقابلے میں اُس سال  بے بی بومرز کی 69 فیصد تعداد نے  ووٹ ڈالے۔

پھر بھی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سیاسی معاملات کے  پروگرام کی ڈپٹی ڈائریکٹر، بیئرٹز کیورٹاس کو اپنے طالب علموں اور ان کے ساتھیوں پر اعتماد ہے۔ وہ کہتی ہیں، “میں جانتی ہوں کہ مِلینیئلز قابل بھروسہ ہیں اور وہ اپنے ملک کے لیے وہی کچھ کریں گے جو اس کے حق میں بہتر ہوگا، کیوںکہ جو کچھ  وہ آج کر رہے ہیں وہی  ان کا مستقبل ہے۔”

شہری امور میں نوجوانوں کی شرکت  سے بہت سے دوسرے ملکوں کا مستقبل بھی متاثر ہو گا،  جن میں ترقی پذیر ممالک خاص طور سے شامل ہیں۔ افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ  کی آبادیوں میں بالعموم نوجوانوں کی تعداد امریکہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

مثال کے طور پر، امریکہ میں وسطی عمر  38  سال ہے۔ لیکن کئی افریقہ ملکوں میں وسطی عمریں 13 اور 19 سال کے درمیان ہیں۔ نائیجر اور یوگنڈا میں، یہ عمریں بہت کم ہیں یعنی 15برس۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں کی آبادیوں میں بھی نوجوانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے — افغانستان میں وسطی عمر 18، پاکستان میں 23، اور بھارت میں 27 سال ہے۔ لاطینی امریکہ میں، وسطی عمریں 20 کے آس پاس ہیں۔ گوئٹےمالا میں وسطی عمر 21 اور برازیل میں 31 ہے۔

کیورٹاس کہتی ہیں کہ امریکہ میں مِلینیئلز سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے ہی اس سال کے صدارتی انتخاب پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ چاہے فیس بُک ہو، یا ٹوئٹر، یو ٹیوب ہو یا سنیپ چیٹ — طالب علموں تک “انتخاب کے نتائج کا فیصلہ کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔”

23 سالہ افشاں مزراہی کا کہنا ہے اپنی بہت سی سہیلیوں کی طرح، وہ بھی نومبر میں یقیناً ووٹ ڈالیں گی۔ مزراہی نے کہا، “ہمیں بہت سی تبدیلیاں متاثر کریں گی۔ لہٰذا یہ بات اہم ہے کہ جو کچھ ہونے والا ہے، اس میں ہمارا عمل دخل بھی ہو۔”

اس مضمون میں وائس آف امریکہ کے ایک مضمون سے استفادہ کیا گیا ہے۔