اس بات کے امکانات ہیں کہ آپ نے نامہ نگاروں کو ٹیلی ویژن پر برائے راست دکھائی جانے والی بریفنگوں میں وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں سے مسلسل سوالات پوچھتے ہوئے یا صدر سے اُن کے ایئرفورس ون طیارے میں تب باتیں کرتا ہوا دیکھا ہو جب وہ صدر کے ہمراہ سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ میڈیا کے بہت سے اداروں نے حال ہی میں نائب صدر ہیرس سے متعلق نامہ نگاری کے لیے اضافی نامہ نگار بھرتی کیے ہیں کیونکہ اس عہدے پر منتخب ہونے والی پہلی خاتون اور پہلی جمیکن اور انڈین نژاد فرد کی حیثیت سے وہ ایک تاریخ ساز شخصیت بن گئی ہیں۔
اِن نامہ نگاروں میں سے زیادہ تر کا تعلق وائٹ ہاؤس کے نمائندوں کی ایسوسی ایشن سے ہے۔ سو برس سے زائد عرصے سے یہ ایسوسی ایشن اپنے صحافیوں کی صدر اور نائب صدر کے بارے میں مفصل رپورٹنگ کرنے میں حوصلہ افزائی کر کے امریکی حکومت کی اعلی ترین سطح پر شفافیت پیدا کرنے میں مدد کرتی چلی آ رہی ہے۔
امریکی آئین پہلی ترمیم کے ذریعے، امریکی حکومت کے سنگ بنیاد یعنی پریس کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ پریس کے اراکین کا اس آزادی کو استعمال کرنے کا ایک طریقہ، وائٹ ہاؤس کے بارے میں خبریں دینا بھی ہے۔
یہ ضروری ہے کہ ٹیلی ویژن، پرنٹ، ریڈیو اور انٹرنیٹ کے لیے خبریں جمع کرنے والے 400 ممبران کی یہ ایسوسی ایشن وائٹ ہاؤس سے آزاد کسی مداخلت کے بغیر کام کرے۔ ایسوسی ایشن کے ممبران انٹارکٹیکا کو چھوڑ کر امریکہ اور دنیا کے ہر براعظم میں قائم میڈیا کے اداروں کے لیے کام کرتے ہیں۔
ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور سابق صدر، سٹیون تھوما کہتے ہیں کہ وائٹ ہاؤس میں روزانہ بریفنگ میں حصہ لینے والے صحافیوں کا جغرافیائی تنوع “امریکہ [میں] پریس کی آزادی کی طاقت کی ایک عظیم مثال ہے۔”
پریس سے ملیے
ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق، صدر وڈرو ولسن کو اپنی نیوز بریفنگ ختم کرنے سے روکنے کے لیے وائٹ ہاؤس پر باقاعدگی سے رپورٹنگ کرنے والی پریس کی برادری نے 1914ء میں یہ ایسوسی ایشن تشکیل دی۔ (ولسن نے انہیں ختم کرنے کی دھمکی دی تھی کیونکہ کچھ اخبارات نے ایسے تبصرے شائع کیے تھے جنہیں وہ نجی سمجھتے تھے۔)
تھوما نے بتایا کہ اس نوزائیدہ تنظیم نے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے نیوز بریفنگ میں صرف مصدقہ نامہ نگاروں کی شرکت کو یقینی بنایا۔ اس سے پہلے صدر کے الفاظ کی بنیاد پر مالی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ان بریفنگوں میں عام طور پر سٹاک مارکیٹ کی خبریں دینے والے لوگ پہنچ جایا کرتے تھے۔

یہ ایسوسی ایشن اپنے قیام کے وقت سے رسائی میں وسعت لانے اور نامہ نگاری کی حمایت کرتی چلی آ رہی ہے۔ اگر ضرورت ہو تو یہ عدالت میں اپنے اراکین کی مدد بھی کرتی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن یہ بھی طے کرتی ہے کہ وائٹ ہاؤس کے بریفنگ روم میں کون کہاں بیٹھے گا۔ اس کے علاوہ یہ صحافیوں کے اُس “پریس پول” (پریس گروپ) میں باری باری صحافیوں کو شامل کرتی ہے جو صدر کی مصروفیات کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ تھوما نے بتایا کہ یہ پوُل 13 سے 20 اُن صحافیوں پر مشتمل ہوتا ہے جو باقیماندہ صحافیوں کے لیے حالات و واقعات کے بارے میں خبریں فراہم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، “ایسا اس لیے ہے کیونکہ نہ تو ہم [وائٹ ہاؤس] کی سینکڑوں افراد پر مشتمل ساری صحافی برادری کے لیے ‘ایئرفورس ون’ [صدارتی طیارے] میں جگہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ساری صحافتی برادری کے لیے بریفنگ روم میں جگہ بنا سکتے ہیں۔”
ایسوسی ایشن کی رکنیت
تھوما نے بتایا کہ وائٹ ہاؤس سے رپورٹنگ کرنے کے لیے آپ کا اس ایسوسی ایشن میں شامل ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس سے کام کرنے والے زیادہ تر صحافی اس ایسوسی ایشن میں شامل ہوتے ہیں۔
تھوما اس بات کا واضح اقرار کرتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں رکنیت دینے کے فیصلے منصفانہ طریقے سے نہیں کیے جاتے تھے۔ ابتدا میں یہ ایسوسی ایشن صرف مردوں اور سفید فاموں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ ایسوسی ایشن کی جانب سے اپنی تاریخ پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق، ممکنہ طور پر رکن بننے والی پہلی خاتون، روزنامہ کرسچیئن سائنس مانیٹر کی کورا رگبی تھیں۔

ایسوسی ایشن کی جانب سے میکالپن کو رکنیت دینے سے انکار کے باوجود، نیشنل نیگرو پبلشرز ایسوسی ایشن کے رپورٹر ہیری ایس میکالپن جونیئر نے 1944ء میں اس وقت پریس کور کی انسانوں کی رنگوں پر مبنی حد توڑ دی جب صدر فرینکلن ڈیلانو روز ویلٹ نے انہیں اوول آفس میں نیوز کانفرنس کی رپورٹنگ کرنے کی دعوت دی۔ 2014ء میں ایسوسی ایشن نے میکالپن کے نام سے یونیورسٹی کا ایک سکالرشپ جاری کیا اور انہیں بعد از مرگ رکنیت دی۔
تھوما نے کہا، “یہ ایک انتہائی عظیم، یاد تھی اور ہماری ایک انتہائی سنگین خامی کا اعتراف تھا۔”
ایسوسی ایشن کی تحقیق کے مطابق نیشنل نیگرو پبلشرز ایسوسی ایشن کے واشنگٹن کے نمائندے کی حیثیت سے میک الپین کی جگہ لوئس لاٹیئر نے لی اور وہ 1951ء میں وائٹ ہاؤس کے اخباری نمائندوں کی ایسوسی ایشن کے اولین سیاہ فام رکن بنے۔
باقاعدہ رکنیت کی اہلیت حاصل کرنے کے لیے اب صحافیوں کے لیے لازمی ہے کہ اُن کی ذمہ داری کا مرکزی حلقہ وائٹ ہاؤس ہو اور وہ باقاعدگی سے وائٹ ہاؤس پر رپورٹنگ کرنے والی کسی اخباری تنظیم کے لیے کام کرتے ہوں۔ درخواست دہندہ صحافی یا اخباری تنظیم کو کانگریس کی اخباری نمائندوں کی قائمہ کمیٹی کی منظوری بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اس کمیٹی کے پانچ صحافی اراکین ہوتے ہیں (جنہیں دوسرے صحافی دو سالہ مدت کے لیے منتخب کرتے ہیں۔) یہ کمیٹی کانگریس کے بارے میں رپورٹنگ کرنے کے لیے نامہ نگاروں کی منظوری دیتی ہے۔
مستقبل کے نامہ نگاروں کی تربیت
1991ء کے بعد سے یہ گروپ امریکی یونیورسٹیوں میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے انڈرگریجویٹ اور گریجویٹ طلبا کو وظائف دے کر اس وقت کام کرنے والے اور مستقبل میں بننے والے صحافیوں کی مدد کرتا چلا آ رہا ہے۔
اس کے بڑے سکالر شپس میں سے تین سکالر شپ تاریخی لحاظ سے سیاہ فام یونیورسٹی یعنی ہوورڈ یونیورسٹی کے طلبا کو دیئے جاتے ہیں۔ سکالر شپ حاصل کرنے والوں کا انتخاب ہسپانوی صحافیوں کی قومی ایسوسی ایشن اور ایشائی نژاد امریکی صحافیوں کی ایسوسی ایشن کرتی ہے۔
اِن سکالر شپس سے طلبا کو سیاست، حکومت یا خارجہ پالیسی کے بارے میں رپورٹنگ کے بارے میں جاننے میں مدد ملتی ہے۔ امیریکن یونیورسٹی کی طالبہ رِدھی سیٹی ایسے لوگوں کے بارے میں کہانیاں لکھتی ہیں جنھیں تاریخی اعتبار سے خارج کیا جاتا رہا ہے۔ سیٹی نے حال ہی میں ایک سکالرشپ حاصل کیا ہے جس سے انہیں تفتیشی صحافت پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔ یونیورسٹی اور وائٹ ہاؤس کی اخباری نمائندوں کی ایسوسی ایشن اس سکالر شپ کے لیے مالی وسائل فراہم کریں گے۔
اس سکالر شپ سے نہ صرف انہیں یونیورسٹی میں اپنی فیس ادا کرنے میں مدد ملے گی بلکہ انہیں وائٹ ہاؤس پر رپورٹنگ کرنے والے کسی سرپرست صحافی کے ساتھ بھی جوڑا جائے گا۔ سیٹی نے بتایا، “مزید سیکھنے کی ہمیشہ گنجائش ہوتی ہے۔ میں ایک ایسی چیز کے بارے میں مزید سیکھنے کے لیے بہت پرجوش ہوں جس کا مجھے بہت شوق ہے۔”