واشنگٹن میں بونسائی درخت: امریکہ-جاپان دوستی کے مظہر

1976ء میں، جب امریکی اپنے ملک کی دو سو سالہ تقریبات منا رہے تھے تو جاپان نے امریکہ کو سالگرہ کا ایک تحفہ دیا: 53 شاہکار بونسائی درخت۔

اِن بونسائی درختوں کو امریکہ کے قومی نباتاتی باغ میں 1972ء میں چین کی طرف سے دیئے گئے پنجِنگ درختوں کے گروپ میں شامل کیا گیا۔ ننھنے منے فنکارانہ شکل و صورت کے درخت اگانے کی صدیوں پرانی جاپانی روایت، بونسائی کہلاتی ہے اور اِس کا ماخذ اس سے ملتا جلتا پنجِنگ نامی ایک چینی طریقہ کار ہے۔

Tree growing from pot (© Benjamin C. Tankersley/Washington Post via Getty Images)
قومی نباتاتی باغ میں میں ایک بونسائی درخت۔ (© Benjamin C. Tankersley/Washington Post via Getty Images)

یہ جاپان کی طرف سے پہلا نباتاتی تحفہ نہیں ہے — 1912ء میں ٹوکیو کے میئر نے 3,000 چیری کے درخت واشنگٹن بھیجے تھے۔ نیشنل مال پر واقع اِن درختوں پر ہر موسم بہار میں خوبصورت پھول کھِلتے ہیں۔

Man pulling cart carrying tree in pot (U.S. National Arboretum/Stephen Ausmus)
میوزیم کے منتظم، جیک سَسٹِک ایک 100 سالہ سہ شاخے میپل کو جاپانی حصّے میں منتقل کر رہے ہیں۔ (U.S. National Arboretum/Stephen Ausmus)

یہ بونسائی تحفہ نیشنل بونسائی اینڈ پنجِنگ میوزیم کے قیام میں مدد گار ثابت ہوا۔ ننھے منے پودوں کا دنیا کا یہ پہلا میوزیم، آج بونسائی ماہرین کا مرکز بن چکا ہے جس میں وہ گملوں میں درخت اگانے کے فن اور سائنس میں دوسروں کو شامل کرتے ہیں۔

اس میوزیم نے حال ہی میں ‘ بونسائی داستان: 53 جاپانی بونسائی امریکہ کیسے آئے’ کے عنوان سے ایک نمائش شروع کی ہے، جو یکم اکتوبر2017 تک جاری رہے گی۔ اس نمائش میں تاریخی طور پر محفوظ شدہ تصاویر اور وہ فلم دکھائی جاتی ہے جس میں امریکہ کے لیے جاپان کے تحفے کی کہانی بیان کی گئی ہے۔

بونسائی میں امریکیوں کی دلچسپی کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دنوں میں ہوا۔ قومی نباتاتی باغ میں باغبانی اور تعلیم کے سربراہ، سکاٹ ایکر بتاتے ہیں، “جاپان میں تعینات فوجیوں کی وطن واپسی پر بونسائی کا فن پورے امریکہ میں پھیل گیا۔ انہوں نے بونسائی کہلانے والے اِن چھوٹے درختوں کے بارے میں اپنی پسند سے متعلق پورے ملک کو بتایا۔

بونسائی کی قِسمیں

کئی عشروں کے دوران، بونسائی کے امریکی طلباء نے جاپان کے اُس طریقہ کار کو سیکھا، جس کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بونسائی کے کچھ درخت عام دستور کے مطابق، گملے کے مرکز میں لگائے جاتے ہیں، جبکہ دوسرے  پہاڑوں میں اُگے ہوئے درختوں کی طرح اپنے گملے کے ارد گرد بَل کھائے ہوئے ہوتے ہیں۔

میوزیم کے ذخیرے میں قسم قسم کے سفیدہ نما درخت، میپل، چیڑھ اور دوسری اقسام کے درخت شامل ہیں۔ سب سے پرانا درخت ایک سفید جاپانی چیڑھ کا ہے، جس کی1625ء سے ایک بونسائی درخت کے طور پر “نگہداشت”  کی جا رہی ہے۔ اس میوزیم میں امریکی طرز کے بونسائی بھی موجود ہیں۔

Row of bonsai trees (U.S. National Arboretum/Stephen Ausmus)
دائیں جانب جاپانی ذخیرے کا سارجنٹ صنوبر کا درخت ہے. اِس بونسائی کی 1905 سے نگہداشت کی جا رہی ہے. (U.S. National Arboretum/Stephen Ausmus)

ایکر نے کہا، “قدرتی ماحول میں اگنے والے درختوں کو چھوٹی قد و قامت کی نئی ساخت اپنانے کے لیے، ان کے بڑھوتری کے عمومی روئیے کو اس کا عادی بنانا پڑتا ہے۔” اسی لیے اس میوزیم کے شمالی امریکی ذخیرے کے شعبے کو امریکہ کے مقامی درختوں سے تخلیق کیا گیا ہے۔ شمالی امریکہ کے بونسائی “ہمارے مقامی جنگلات کی خوبصورتی اور انداز کی عکاسی کرتے ہیں۔”

اس میوزیم کی سیر کسی مصروف شہر کے عین وسط میں ایک نخلستان میں جانے کی مانند ہے۔ ایکر کہتے ہیں کہ ‘بونسائی ساگا’ نمائش سے، یہاں آنے والوں کو “دو ممالک کے درمیان سخاوت اور خیرسگالی کی کہانی کا پتہ چلتا ہے۔” بونسائی کی خوبصورتی کے ذریعے بیان کی گئی اس کہانی سے “کسی بھی ثقافت سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے.”