
جب دنیا کی مردوں کی والی بال کی بہترین ٹیمیں — یعنی برازیل، فرانس، ایران، پولینڈ، روس اور امریکہ — 10 سے 14 جولائی تک شکاگو میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئیں تو ہر ایک ٹیم کی حوصلہ افزائی کے لیے نعرے بازی کرنے والے مداحوں کے اپنے اپنے سیکشن تھے۔ ایرانی ٹیم کے مداحوں کے نعرے سب سے زیادہ بلند آواز میں تھے۔
اس ٹورنامنٹ کے دوران امریکی ٹیم کے مڈل بلاکر، میکس ہولٹ نے ایران اور برازیل کے درمیان کھیلا جانے والا میچ دیکھا۔ ہولٹ کہتے ہیں، “ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم ایران میں ہیں۔ یہاں پر ایرانی ٹیم کے مداحوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی۔ اُن کے مداح ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔”
ایران پر عائد موجودہ پابندیوں کو اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ ایرانی عوام پر اِن کے کم سے کم نقصان دہ اثرات مرتب ہوں۔ خوراک، دواؤں اور کسی آفت کی صورت میں دی جانے والی امداد، کھیلوں اور والی بال جیسی ثقافتی تقریبات کو امریکی پابندیوں سے استثنا حاصل ہے۔
امریکہ کے کوچ جان سپیرو نے کہا، “[والی بال نیشنز لیگ] کے فائنل کی میزبانی کرنے والے امریکہ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے اس [ٹورنامنٹ] کے ساتھ میری سب سے بڑی یہ امید وابستہ تھی کہ یہ کھلاڑیوں کے لیے ایک زبردست تجربہ ثابت ہو۔” مداحوں کا جوش جذبہ دیکھنے کے بعد سپیرو نے کہا، “میں امید کرتا ہوں کہ ایرانی مستقبل میں بھی آتے رہیں گے۔”

شکاگو میں کھیلا جانے والا “انٹرنیشنل والی بال فیڈریشن” (ایف آئی وی بی) کا یہ ٹورنامنٹ اولمپکس کے سوا امریکہ میں ہونے والا والی بال کا پہلا بڑا ٹورنامنٹ ہے۔ اس کے علاوہ 2015ء کے بعد ایران کی والی بال کی ٹیم کا امریکی سرزمین پر کوئی میچ کھیلنے کا یہ پہلا موقع ہے۔

ایران کا میچ دیکھنے کے لیے ایک ایرانی نژاد امریکی بذریعہ ٹرین 467 کلومیٹر کا سفر طے کر کے سینٹ لوئس سے آیا جب کہ اس کا ایک دوست ٹیم کا حوصلہ بڑہانے کے لیے بوسٹن سے 1,580 کلومیٹر کار چلا کر آیا۔ ایک مترجم کے ذریعے اس نے بتایا، “برازیل کے مداحوں کی نسبت ہمارے مداحوں کے نعرے زیادہ بلند تھے۔ ہم اپنی پوری قوت سے چیخ رہے تھے اور حوصلہ بڑہانے کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ ایرانی مداح توانائی سے بھرپور تھے۔”

والی بال کورٹ پر موجود ایرانی نژاد امریکی مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ نعرے لگارہے تھے۔ کچھ عورتیں سروں پر سکارف لیے ہوئے تھیں اور کچھ کے سروں پر سکارف نہیں تھے۔ اُن کا تعلق شکاگو کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ پورے امریکہ سے تھا۔ اُن سب میں جو چیز مشترک تھی وہ [ایرانی] ٹیم کے لیے اُن کی محبت تھی۔
ایران میں والی بال کے کھیل نے تیزی سے مقبولیت حاصل کی ہے اور اس کی مردوں کی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ تجربہ کار مڈل بلاکر، سید محمد موسوی نے والی بال نیشنز لیگ کے نمائندے کو بتایا کہ ایران میں چار کروڑ افراد ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے میچ دیکھتے ہیں۔ انسٹا گرام پر موسوی کے فالورز کی تعداد دس لاکھ سے اوپر ہے۔

12 جولائی کو ایران کا برازیل کے ساتھ کھیلا جانے والا میچ اس ٹورنامنٹ کا نمایاں میچ تھا۔ ہار کی صورت میں ٹورنامنٹ سے باہر نکل جانے سے بچنے کی وجہ سے یہ میچ دونوں ٹیموں کے لیے اہم تھا۔ اس سے قبل ایران اور برازیل دونوں پولینڈ کی ٹیم سے ہار چکے تھے۔
جاندار کھیل سے بھرپور اس میچ میں برازیل نے پہلی دو گیمیں جیتیں۔ تاہم ایران نے تیسری اور چوتھی گیموں میں کامیابی حاصل کرکے میچ برابر کر دیا۔ آخر میں ایران تھوڑے سے فرق سے یہ میچ ہار گیا۔

ایران کے آؤٹ سائڈ ہٹر، میلاد عبادپوری اور ان کی ٹیم کے ساتھیوں کی نظریں شکاگو ٹورنامنٹ کی فاتح روسی ٹیم کے خلاف اولمپک کھیلوں میں کوالیفائی کرنے کے لیے کھیلے جانے والے میچ پر ہیں۔ عبادپوری نے بتایا، “یہ ایک مشکل میچ ہوگا۔ مگر ہم ہر ایک پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم دنیا کی بہترین ٹیموں میں سے ایک ہیں۔”
عبادپوری نے کہا، “سب ایرانیوں کو مبارک ہو۔ ان سب نے یہاں پر ہماری ہمت بڑھائی۔ ان سب کا شکریہ۔ میں اُن کے ہاتھ چومتا ہوں۔”