وباؤں کی فوری روک تھام: قومی سلامتی کے تحفظ کی ضامن

شدت پسندی اور جارحیت کا مقابلہ کرنا، امریکی سرزمین، سمندر اور فضائی حدود کی حفاظت اور جمہوریت ارو معاشی آزادی کا تحفظ امریکی قومی سلامتی کے مفادات میں شامل ہیں۔

ایبولا جیسی وبائیں خواہ کہیں بھی پھیلیں ان کی روک تھام امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی کا ایک اہم ستون ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ سال کے اواخر میں افریقی رہنماؤں سے کہا، “اگر ہم صحت مند نہ ہوں تو ہم خوشحال نہیں رہے سکتے۔”

جب امریکہ اور دوسرے ممالک بیماریوں کو پھوٹنے سے روکنے کے لیے کام کرتے ہیں تو اس سے دنیا بھر میں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ قومی سلامتی کونسل میں عالمگیر صحت کے تحفظ اور حیاتیاتی بیماریوں سے متعلق سینئر ڈائریکٹر ٹم زیمیر کہتے ہیں، “وائٹ ہاؤس نے عالمگیر صحت کے ایجنڈے کی خاطر بھرپور طور سے جدوجہد کی ہے۔”

2014 میں مغربی افریقہ میں ایبولا کی جان لیوا وبا پھوٹنے کے بعد 60 سے زیادہ ممالک نے “گلوبل ہیلتھ سکیورٹی ایجنڈا” [صحت کے عالمی ایجنڈے] کے نام سے ایک شراکت قائم کی تھی۔ بیماریوں پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے امریکی مرکز (سی ڈی سی) میں وبائی امراض کی ماہر این شوچیٹ کہتی ہیں کہ اس وبا نے “دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔”

اس عالمگیر شراکت میں امریکی کردار سے متعلق ایک پراگریس رپورٹ میں درج ذیل کامیابیوں کا حوالہ دیا گیا ہے:

  • گنی، لائبیریا اور سیرالیون میں صحت عامہ سے متعلق 38 ہزار کارکنوں اور مقامی علاقوں میں صحت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کارندوں نے انفیکشن کی روک تھام اور اس پر قابو پانے کے طریقے سیکھے۔
  • کینیا کے پاس اب جانوروں سے پھیلنے والی بیماریوں بشمول باؤلے کتے کے کاٹنے سے لاحق ہونے والی بیماری، رفٹ ویلی بخار اور اینتھریکس کی نگرانی کا نیا نظام موجود ہے۔
  • پاکستان کی ماضی کے مقابلے میں ایک صوبے میں خسرے کے دگنے حفاظتی ٹیکے لگانے میں اور ایتھوپیا کی صومالی خطے میں خسرے کی روک تھام میں مدد دی گئی ہے۔
  • بنگلہ دیش میں لیبارٹریاں اب اینتھریکس، سیلان خون کے بخار، چوہوں، کتوں اور دیگر جانوروں سے پھیلنے والی بیماریوں اور بیماریاں پھیلانے والے دیگر جرثوموں کا سراغ لگا سکتی ہیں۔
  • ویت نام میں مقامی سطح پر نگرانی میں بہتری کی بدولت 100 بیماریوں کا کھوج لگایا گیا۔ اب ملک بھر میں اس حوالے سے ایک رہنما منصوبہ جاری ہے۔
Teenage girl looking toward gloved hand holding device next to her forehead (© Sunday Alamba/AP Images)
ایبولا کی تشخیص کے لیے ایک لڑکی کا درجہ حرارت لیا جا رہا ہے۔ (© Sunday Alamba/AP Images)

اپریل میں ایڈز کے محقق رابرٹ ریڈفیلڈ کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے ‘سی ڈی سی’ کی سربراہی کرنے والی شوچیٹ کہتی ہیں باہم جڑی ہوئی دنیا میں کسی دور دراز علاقے میں جنم لینے والا جرثومہ 36 گھنٹوں میں چھ براعظموں کے تمام بڑے بڑے شہروں میں پہنچ سکتا ہے۔”

بیماریوں سے بچاؤ کی تیاری میں ممالک کی معاونت

نیوی کے ریٹائرڈ ریئر ایڈمرل اور قبل ازیں دنیا بھر میں ملیریا کے خلاف امریکی کاوشوں کی رہنمائی کرنے والے زیمیر کہتے ہیں، “عالمگیر صحت کے تحفظ کے ایجنڈے نے بیماریوں سے بچاؤ کی تیاری کا عمل تیز کرنے میں مدد دی ہے۔”

زیمیر کاکہنا ہے، “ایبولا کی وبا نے 11 ہزار جانیں لیں اور اس سے دنیا کو احساس ہوا کہ ہم کیسے خطرات کا سامنا تھا اور اب بھی ہے۔”

عالمگیر صحت کے تحفظ کے ایجنڈے سے وابستہ ممالک عالمی ادارہ صحت اور سرکاری و نجی شعبے میں صحت کے شعبے سے متعلق دیگر گروہوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ امریکہ نے اس سلسلے میں ایک ارب ڈالر دیے ہیں۔ طبی اسرار حل کرنے کے لیے مشہور ‘سی ڈی سی’ اور امریکہ کے ترقی کے بین الاقوامی ادارے کے ذریعے دی جانے والی اس امداد سے افریقہ اور ایشیا کے 17 ممالک کو یہ سیکھنے میں مدد ملی کہ مہلک وائرس کی نشاندہی ، اس کی روک تھام اور اس مقصد کے لیے درکار جدید آلات کا حصول کیونکر ممکن ہے۔

Two men taking samples from a camel's nose (PREDICT/Kenya)
جانوروں کا ایک ڈاکٹر اونٹ کی ناک سے لعاب حاصل کرکے کسی ممکنہ بیماری کی موجودگی کا پتہ لگا رہا ہے۔ (PREDICT/Kenya)

لائبیریا عالمگیر صحت کی سلامتی کی مد میں جاری ہونے والی امداد کا بڑا حصہ وصول کرتا ہے۔ شوچیٹ بتاتی ہیں کہ جب وہاں ایک پراسرار بیماری کے 14 مریض سامنے آئے اور آٹھ اموات ہوئیں تو پھر کیا ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، “لائبیریا نے فوری طور امریکہ سے تربیت حاصل کرنے والے 14 ماہرین کو بیماریوں کی نشاندہی کے لیے متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ صحت عامہ کے حوالے سے ہنگامی کارروائیوں کے نئے مرکز کو بھی متحرک کیا اور فوری طور پر کاروائی کرنے والی ایک ٹیم تعینات کی۔”

لیبارٹریوں میں ہونے والے تجزیوں سے نشاندہی ہوئی کہ یہ گردن توڑ بخار جیسی ایک جراثیمی بیماری ہے جس کا علاج ممکن ہے۔ فوری کارروائی کے نتیجے میں اس بیماری کا اس بیماری کو وبا کی شکل اختیار کرنے سے روکا گیا۔ اس بیماری کا 31 افراد شکار ہوئے اور اس سے 13 اموات ہوئیں۔