
نئے کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد امریکہ کے محکمہ دفاع نے افریقہ، ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکہ میں درجنوں شراکت دار ممالک کو بیماری کے تجزیے اور تشخیص سے متعلق 1.1 ملین ڈالر مالیت کا سامان مہیا کیا ہے۔
امریکی فوج کی طبی تجربہ گاہوں نے کووِڈ۔19 کا سبب بننے والے وائرس کی حیاتیاتی نگرانی کے لیے 6.9 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں اور اس سلسلے میں 30 ممالک میں مطالعاتی جائزے لیے گئے جن کا مقصد بیماری کو روکنا اور عسکری تیاری برقرار رکھنا ہے۔ اسی اثناء میں محکمے کے سائنس دان دنیا بھر میں لوگوں کو اس بیماری سے تحفظ دینے کے لیے کووِڈ۔19 ویکسین تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
اس نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار سست کرنے اور اس سے لاحق ہونے والی بیماری کے علاج یا اسے روکنے کی یہ کوششیں صحت کے ایسے ہی بحرانوں کے خلاف امریکی فوج کے مددگار کردار کی طویل تاریخ میں حالیہ ترین اضافہ ہیں۔
1990 کی دہائی میں یوگنڈا میں ایچ آئی وی پھیلنے کے موقع پر جب ڈاکٹر نیلسن مائیکل نے گاڑی میں یوگنڈا کا سفر کیا تو انہوں نے اس ملک پر بیماری کا اتنا زیادہ غلبہ دیکھا کہ دکان دار سڑکوں کے کنارے تابوت فروخت کر رہے تھے۔
محکمہ دفاع کی مدد سے ایڈز کے خاتمے کے لیے امریکی صدر کا ہنگامی منصوبہ متعارف کرایا گیا جسے عام طور پر ”پیپفار” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے متعارف کرائے جانے کے کئی برسوں بعد والٹر ریڈ آرمی انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ میں وبائی بیماریوں پر تحقیق کے مرکز کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے والے مائیکل کا دوبارہ یوگنڈا جانا ہوا۔ اس مرتبہ جب وہ اینٹیبے کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے گاڑی میں کمپالا جا رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ سڑکوں کے کنارے تابوتوں کی بجائے فرنیچر بیچنے کی صدائیں لگا رہے تھے۔
مائیکل ریٹائرڈ کرنل ہیں جنہوں نے ایبولا اور زیکا بیماری کے خلاف ویکسینیں تیار کرنے میں مدد کی اور اب وہ ایچ آئی وی اور کووِڈ۔19 کے خلاف زندگی کو تحفظ دینے کی ویکسینوں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”ہم ایک بڑی تبدیلی لائے۔ آج لوگ زندہ ہیں۔ ترقی کر رہے ہیں اور یقیناً یہ معاشرے اب پہلے سے زیادہ محفوظ ہو چکے ہیں۔”

عالمگیر وباؤں پر قابو پانے میں مدد دینے کے حوالے سے امریکی فوج ایک طویل تاریخ رکھتی ہے اور اس کی ایک معقول وجہ بھی ہے۔ 2008 کے ایک جائزے کے مطابق امریکہ کے ابتدائی 145 برسوں میں امریکی فوج کے بیشتر فوجی دشمن کے خلاف جنگوں سے زیادہ، وبائی بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔ ویکسین اور اینٹی بائیوٹک ادویات کے میدان میں ترقی نے دوسری جنگ عظیم کے دور میں اس رجحان کے بدلنے میں مدد کی۔
آج وباؤں سے ناصرف فوجیوں کو بلکہ امریکہ کے عام شہریوں اور اتحادیوں کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ امریکی فوج میں سائنس، طب اور صحت عامہ کے شعبوں سے متعلق لوگ دنیا بھر میں وبائی بیماریوں پر تحقیق کرتے ہیں تاکہ ان بیماریوں کا نشانہ بننے والے مریضوں کا علاج اور ان امراض کا خاتمہ کیا جاسکے۔
فوج نے چند منتخب عالمگیر وباؤں کے خلاف لڑنے میں جس طرح مدد کی، ذیل میں اُس کے بارے میں بتایا گیا ہے:
ایبولا
2014 میں امریکی فوج کے 2,800 سے زیادہ ارکان کو وبا روکنے اور متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے لائبیریا میں تعینات کیا گیا۔
امریکی فوجی دستوں نے 1539 مقامی طبی کارکنوں کو تربیت دی، شہری طبی ماہرین کی 30 رکنی امدادی ٹیم تیار کی، ایبولا کے علاج کے 10 مراکز بنائے، سات گشتی لیبارٹریاں تیار کیں، 4500 سے زیادہ مریضوں کے ٹیسٹ کیے، اور صحت کے شعبے میں مقامی کارکنوں کو ذاتی حفاظت کے سازوسامان کے 1.4 ملین سیٹ فراہم کیے۔

مزید برآں امریکی فوج کے وبائی بیماریوں کے تحقیقی ادارے، دفاعی خطرات میں کمی لانے والے ادارے اور جدید دفاعی تحقیق کے پراجیکٹوں کے ادارے نے ایبولا کا مقابلہ کرنے اور زندگیاں بچانے کے لیے ویکسین تیار کی اور علاج ڈھونڈھے۔ مجموعی طور پر امریکی محکمہ دفاع نے ایبولا سے متعلق کارروائیوں پر 400 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تین دہائیوں تک امریکی فوج کی سپیشل فورسز کے افسر اور پینٹاگون کے سابقہ عہدیدار اور اب ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے فیلو کی حیثیت سے کام کرنے والے، سٹیون پی بوچی کہتے ہیں، ”لوگ یہ دیکھ کر بے حد حیران ہوئے کہ افریقہ میں مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچنے والے جو چند لوگ تھے وہ فوجی تھے۔”
فوجی ایسے کاموں کے لیے اچھی طرح تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔
ایچ ون این ون
2009 میں ایچ ون این ون انفلوئنزا وائرس (یا سوائن فلو) کی وبا کے ابتدائی مراحل میں امریکی فوج کی مالی معاونت سے قائم کردہ عسکری طبی تشخیصی سہولیات نے مشرق وسطٰی، افریقہ اور مشرقی ایشیا میں اس بیماری کے مریضوں کی تلاش میں کلیدی کردار ادا کیا۔
محکمہ دفاع نے وباؤں کے خلاف سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچنے والوں کی تربیت کی اور انہیں طبی سازوسامان فراہم کیا۔
قاہرہ میں امریکی بحریہ کے طبی تحقیقی یونٹ نمبر 3 نے افریقہ، مشرق وسطٰی اور وسطی ایشیا کے 32 ممالک کے سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کو طبی تجزیے کے تکنیکی پہلوؤں اور تشخیصی طریقہ ہائے کار کی تربیت دی۔

بیماری کی شدت کا ابتدائی مرحلے میں اندازہ کرنے، دنیا بھر میں حکومتی اداروں کی جانب سے فوری ردعمل اور ایچ ون این ون کے فلو کے معلوم وائرس جیسی جینیاتی بناوٹ کا علم ہونے سے ماہرین کو اپریل 2009 کے اواخر تک ایک موثر ٹیسٹ کٹ کی تیاری اور اکتوبر 2009 میں اس کی ویکسین دریافت کرنے میں مدد ملی۔
سارز
انتہائی شدید تنفسی علامات (سارز) کے بارے میں بڑے پیمانے پر توجہ سے 2003 میں ایک عالمگیر سائنسی کاوش کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں ایسی دریافتیں ہوئیں جنہوں نے اس وباء کو محدود کر دیا۔ ریاست میری لینڈ میں واقع فورٹ ڈیٹرک میں وبائی بیماریوں سے متعلق امریکی فوج کے طبی تحقیقی ادارے کے محققین نے سیکڑوں موجودہ دواؤں کا تجزیہ کیا تاکہ سارز کے خلاف ان کی تاثیرکو جانچا جا سکے، اور نئی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیقی مراکز کی مدد کی جاسکے۔ اس ادارے کی تجربہ گاہ نے یہ دریافت کیا کہ ‘انٹرفیرون’ دوا سارز وائرس کو روک سکتی ہے۔ یہ دریافت انٹرفیرون پر مزید تحقیق کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
اسی دوران امریکی فوج نے جنوبی کوریا میں موجود اپنے فوجیوں میں وائرس کا پھیلاؤ روکنے پر کام کیا۔ کوریا میں امریکی افواج (یوایس ایف کے) کی کمان کے سرجن نے فوجی اہلکاروں کو محفوظ رکھنے اور سارز کا پھیلاؤ محدود کرنے کے اقدامات اٹھانے کی غرض سے ایک ٹیم بنائی۔ یوایس ایف کے کی قیادت نے جنوبی کوریا کے ذرائع ابلاغ سے بات کی اور جنوبی کوریا کے عوام کو اس وائرس سے متعلق سوالات کا جواب دینے کے لیے ایک ہاٹ لائن فراہم کی۔
صحت کی عالمی تنظیم کے مطابق 2002 اور 2003 کی وبا کے بعد اب تک بہت کم تعداد میں سارز کے مریض سامنے آئے ہیں۔
ایچ آئی وی/ایڈز

امریکی فوج کے ایچ آئی وی سے متعلق تحقیقی پروگرام (ایم ایچ آر پی) کا قیام 1986 میں عمل میں آیا۔ اس پروگرام کے کے تحت یہ ادارہ بیماری سے متعلق تحقیق، معائنے، ادویات کے تجربات اور لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے ایشیا، افریقہ اور یورپ کے تحقیقی مراکز کے ساتھ مل کر کام کر چکا ہے۔
آج کل کورونا وائرس کے خلاف اقدامات پر وائٹ ہاؤس کی رابطہ کار، ‘ایم ایچ آر پی’ کی سفیر، ڈیبرا برکس کی قیادت میں جنوری 2004 میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے تھائی لینڈ کی شاہی فوج اور (امریکی) فوج کے والٹر ریڈ تحقیقی ادارے کے ساتھ مل کر تجرباتی طور پر 16 ہزار لوگوں کو ویکسین لگائی۔
محقیقین نے دریافت کیا کہ دو ویکسینوں کو اکٹھا استعمال کرنے سے تھائی لینڈ میں ایچ آئی وی کی ایک قسم سے لاحق ہونے والی بیماری کی شرح میں قریباً 30 فیصد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس سے ایچ آئی وی کی روک تھام میں ممکنہ ویکسین کی تیاری میں کامیابی کا اندازہ ہوا۔ تھائی لینڈ اور افریقہ کے بعض حصوں میں ایم ایچ آر پی کی ویکسین کا تجرباتی استعمال جاری ہے۔
علاوہ ازیں امریکی فوج دنیا بھر میں ایچ آئی وی کی روک تھام اور علاج کے لیے اگلی صفوں میں مصروف عمل ہے۔ محکمہ کا شمار ‘پیپفار’ پر عمل درآمد کرانے والے اہم اداروں میں ہوتا ہے۔ اس میں ایچ آئی وی/ایڈز کی روک تھام کا پروگرام دنیا کے53 ممالک میں اپنے عسکری شراکت داروں کو ایچ آئی وی/ایڈز کی روک تھام کے لیے ثقافتی طور پر موزوں اور فوجی اعتبار سے خصوصی نگہداشت اور علاج کی تیاری اور اس پر عمل درآمد میں مدد دیتا ہے۔ اس کا مطلب فوجیوں اور ان کے اہلخانہ کے ایچ آئی وی ٹیسٹ، گشتی مراکز میں تحفظ زندگی کے لیے وائرس کے خاتمے کے علاج سے متعلق سہولتیں اور محفوظ جنسی تعلقات کی تعلیم میں مدد دینا ہے۔