
سال 2022 کا ‘ ورلڈ فوڈ پرائز’ [خوراک کا عالمی انعام] جیتنے والی سنتھیا روزن وائیگ، تحقیق کرنے والی ایک سینئر سائنسدان اور ناسا کے گوڈارڈ انسٹی ٹیوٹ برائے امن میں آب و ہوا کے اثرات کا جائزہ لینے والے گروپ کی سربراہ ہیں۔ اس کے علاوہ وہ برنارڈ کالج میں پروفیسر اور کولمبیا یونیورسٹی کے ‘ ارتھ انسٹی ٹیوٹ’ [ارضی ادارے] میں ایک تحقیق کرنے والی ایک سینئر سائنسدان کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔
1986 سے لے کر اب تک 50 سے زائد ایسے افراد کی کامیابیوں کے اعتراف میں اُنہیں خوراک کا عالمی انعام دیا جا چکا ہے جو پوری دنیا میں خوراک کے معیار اور مقدار کو بڑھانے میں مدد کر رہے ہیں۔

چار دہائیوں پر پھیلی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں روزن وائیگ ایک کسان، موسمیاتی ماہر اور کاشت کاری کے لیے موزوں زمین کو بہتر طور پر استعمال کرنے کی ماہر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔
ورلڈ فوڈ پرائز فاؤنڈیشن کی صدر باربرا سٹنسن نے 5 مئی کواس برس کی انعام جیتنے والی شخصیت کے اعلان کی تقریب میں کہا، “وہ 1980 کی دہائی کے اوائل سے خوراک اور آب و ہوا کے شعبے میں ایک رہنما کی حیثیت سے کام کرتی چلی آ رہی ہیں۔ [اس دوران] انہوں نے یہ جاننے کے لیے کچھ ابتدائی مطالعات کیے کہ موسمیاتی تبدیلی شمالی امریکہ میں خوراک کی پیداوار کو کس طرح متاثر کرے گی۔ اُن کا شمار خوراک کی فراہمی پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دستاویزی شکل دینے والی ہمارے اولین شخصیات میں ہوتا ہے۔”
روزن وائیگ نے 2010 میں ‘ ایگریکلچرل ماڈل انٹر کمپیریزن اینڈ امپروومنٹ‘ (اے جی ایم آئی پی) نامی ایک پراجیکٹ کی بنیاد بھی رکھی۔ آب و ہوا اور خوراک کے نظام کے ماڈلوں کا استعمال کرتے ہوئے اے جی ایم آئی پی موسمیاتی بحران سے متاثر ہونے والے زرعی اور خوراک کے نظاموں کے مستقبل کی پیشین گوئیوں کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے تحت خوراک کے نظام کو تبدیل کرنے اور دنیا کے ممالک کو خوراک کے عدم تتحفظ سے بہتر طریقے سے نمٹنے کی صلاحیت حاصل کرنے کی خاطر، حقائق پر مبنی ماڈل تیار کیے گئے ہیں۔
ورلڈ فوڈ پرائز فاؤنڈیشن کے مطابق اے جی ایم آئی پی کے تحت 90 ممالک کی موسمی بحران کے بدترین اثرات کے لیے تیار رہنے میں مدد کی جا چکی ہے۔
روزن وائیگ اقوام متحدہ میں ماحولیاتی سائنسدان اور خوراک کی حفاظت کے لیےعملی اقدامات اٹھانے کی وکیل کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔ انہوں نے 2007 میں آب و ہوا سے متعلق بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے ورکنگ گروپ II کی چوتھی جائزہ رپورٹ اور 2019 میں موسمیاتی تبدیلی اور زمین سے متعلق آئی پی سی سی کی خصوصی رپورٹ کے لیے سرکردہ رابطہ کار مصنفہ کے طور پر بھی کام کیا۔
اس تقریب میں امریکی محکمہ خارجہ کے انڈر سیکرٹری، ہوزے ڈبلیو فرنیڈیز نے کہا، “پہلے ہی سے موسمیاتی تبدیلیوں نے عالمی زرعی پیداوار پر اہم اور منفی اثرات ڈالے ہیں اور ان کے اثرات بد سے بدتر ہونے جا رہے ہیں۔” اس ضمن میں انہوں نےخشک سالی کے دوران فصلوں کے مرجھانے اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی تیزابیت سے مرتی ہوئی خول والی مچھلیوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا، ” شاید ہم ڈاکٹر سنتھیا روزن وائیگ کے کام کے بغیر ان تمام مسائل کو نہ سمجھ پاتے جیسا کہ ہم آج بھی نہیں سمجھ رہے۔”