وزیر خارجہ کیری کی ایران کے سمجھوتے کی وضاحت

امریکی وزیر خارجہ جان کیری (بائیں سے تیسرے)، سیاسی امور کی انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ وینڈی شرمن (انتہائی بائیں طرف) اور توانائی کے وزیر ارنسٹ مونیز سے بات کر رہے ہیں۔(© AP Images)

امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ  ایران کا سمجھوتہ دنیا کو محفوظ تر بنا سکتا ہے اور علاقائی مواقعوں کے دروازے کھول سکتا ہے۔

کیری نے 14 جولائی کو ویانا میں کہا، “امریکہ اور ہمارے پی 5 پلس ون شرکائے کار، اور ایران نے جوہری پھیلاؤ کے ممکنات سے دور ہونے اور شفافیت اور تعاون کی جانب بڑھنے کا  ایک قابل ذکر قدم اُٹھایا ہے۔ یہ تصادم کے آسیب سے دُور اور امن کے امکان کی جانب ایک قدم ہے۔”

وزیر خارجہ  مذاکرات کاروں کے حتمی سمحھوتے پر پہنچنے کے اُس اعلان کے بعد باتیں کر رہے تھے جس کے تحت یہ یقینی بنانا ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں پُرامن  رہیں۔

یہ کہتے ہوئے کہ ” نہ صرف امریکہ، بلکہ فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس، چین، اور ای یو  —  ہم سب نے اِسے درُست طریقے سے کرنے کا مصمم ارادہ کیا ہوا  تھا،” کیری نے کہا کہ استقامت کا نتیجہ ایک ایسے سمجھوتے کی صورت میں نکلا ہے  جو ایران کے افزودہ یورنیم کے ذخیرے کو کم کرتا ہے، زیرِ استعمال سنٹری فیوجز کی تعداد کو گھٹاتا ہے، اور ایران کو درکار افزودگی کی رفتار تیز کرنے اور محض ایک جوہری ہتھیار کے لیے کافی مقدار میں انشقاق پذیر مادہ  تیار کرنے کے وقت  میں اضافہ کرتا ہے۔

 صدر اوباما نے بھی 14 جولائی کو ایک بیان جاری کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ “سمجھوتہ مرحلہ وار نافذ کیا جائے گا۔ اِس کا آغاز 90 دن کے اندر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توثیق سے ہوگا اور اِس کی کُچھ  شقیں 10 برسوں، اور بعض شقیں 25 برسوں تک نافذالعمل رہیں گی۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ مخصوص شقیں مستقل طور پر نافذالعمل رہیں گی۔

کیری نے کہا کہ “یہ سمجھوتہ ایک بمب کے لیے درکار انشقاق پذیر مادے کی تیاری کے ایران کے ممکنہ طریقوں سے مندرجہ ذیل طریقوں سے نمٹتا ہے:

  • ایران کو اعلٰی افزودہ  یورینیم یا ہتھیاروں میں استعمال کے قابل پلوٹونیم تیار کرنے یا حاصل کرنے سے، کم از کم اگلے 15 سال تک کے لیے روکنا۔
  • ایران کے افزودہ یورینیم کے مجموعی ذخیرے کی حد مقرر کرنا۔ ایران کا موجودہ ذخیرہ12,000  کلو گرام کے برابر ہے — اسے اگلے 15 سالوں تک کے لیے محض 300 کلو گرام تک لانا۔
  • ایران کے ناتانز کے پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی مقدار میں خاطر خواہ کمی کرنا۔
  • ایران کی یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیوں کو اگلے 10 سال کے لیے اول  دور کی سنٹری فیوجز تک  محدود کرنا اور ایران کے فوردو کے پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیوں کو اگلے 15 سال تک کے لیے روکنا۔
  • اراک میں ایران کے بھاری پانی کے ری ایکٹر کی یہ یقین دہانی کرنے کے لیے تعمیرِ نو کرنا کہ اسے ہتھیاروں میں استعمال کے قابل پلوٹونیم کی تیاری کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔

کیری نے کہا کہ اِس سمجھوتے سے “ہمیں یہ اعلٰی ترین یقین دہانی بھی حاصل ہوئی ہے کہ ایران خفیہ طور پر ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔”

معائنہ کار ایران کی اعلان کردہ  سہولتوں تک روزانہ کی بنیادوں پر رسائی حاصل کر سکیں گے۔ اُنہیں ایران کے جوہری پروگرام میں مدد کرنے والے رسد کے پورے سلسلے تک بھی رسائی حاصل ہو گی۔ وزیرخارجہ کے مطابق ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے معائنہ کار”کسی بھی ایسے مقام تک رسائی حاصل کرسکیں گے جسے آئی اے ای اے اور پی 5 پلس ون اقوام کی اکثریت مشکوک سمجھتی ہو۔”

یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ “جوہری پروگرام سے متعلقہ پابندیوں نے ایرانی عوام کی زندگیوں کو شدت سے متاثر کیا ہے،” کیری نے اعلان کیا  کہ “بین الاقوامی برادری ایرانی معیشت پر عائد جوہری  پروگرام سے متعلق پابندیاں اُٹھا  لے گی۔”

وزیر خارجہ نے کہا کہ جیسے ہی ایران اپنے ابتدائی کلیدی جوہری وعدے پورے کرنا شروع کرے گا پابندیوں میں نرمی کا آغاز ہوجائے گا، لیکن اُنہوں نے اِس بات کا اضافہ کیا کہ “ہتھیاروں اور اِن کے پھیلاؤ سے متعلق پابندیوں سیمت بعض پابندیاں آنے والے کچھ برسوں تک بدستور قائم رہیں گِیں۔”

کیری نے اِس بات پر زور دیا کہ “سمجھوتے کے کسی بھی حصے کا انحصار اعتماد پر نہیں ہے۔ اِس کی بنیاد مفصل اور مکمل شفافیت اور اُن تصدیقی اقدامات پر ہے جو اِس سمجھوتے سے منسلکہ دستاویزات میں درج انتہائی مخصوص شرائط میں شامل ہیں. اگر ایران عمل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ہمیں اِس کا پتہ چل جائے گا کیونکہ ہم وہاں موجود ہوں گے — یعنی بین الاقوامی برادری کے ذریعے  — آئی اے ای اے  اور دیگر ذرائع کے ذریعے —  اور ہمیں جلدی پتہ چلے گا، اور ہم اس کے مطابق کاروائی کر سکیں گے۔”

وزیر خارجہ نے تسلیم کیا کہ عمل درآمد کا مرحلہ مشکل کام ہوگا لیکن اُنہوں نے کہا کہ رجائیت پسندی کا جواز موجود ہے۔

اگر پوری طرح اِس پر عمل درآمد کیا گیا تو یہ سمجھوتہ “آج کی نسبت دنیا کو مستقبل میں محفوظ تر بنا دے گا، اور یہ اُن علاقائی چیلنجوں سے نمٹنے کے آغاز کی خاطر بالآخر مواقعوں کے دروازے بھی وا کردے گا، جنہیں ابتدائی قدم کے طور پر  اِس قسم کے سمجھوتے کی موجودگی کے بغیر حل نہیں کیا جا سکتا۔ قطع نظر اِس کے کہ یہ کتنا ہی ناممکن دکھائی دیتا ہو، گزشتہ 18 ماہ آگے بڑہنے کی ایک پُرامن راہ کی اُستواری کے لیے یہ سمجھوتہ سفارت کاری کی باکمال  طاقت کی مزید ایک اور مثال ہے۔”