وسطی بحر آرکٹک میں مچھلیوں کے تحفظ کی خاطر اقوام کا اتحاد

ہر سال اپریل میں منایا جانے والا یومِ ارض دنیا کے ممالک کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ آلودگی میں کمی سے لے کر جنگلی حیات کے تحفظ تک بہت سے مسائل پر اپنے کام کا جائزہ لیں۔

اس مقصد کے لیے وسطی بحر آرکٹک میں تجارتی پیمانے پر ماہی گیری پر 16 سالہ پابندی، متعدد ممالک کے مابین باہمی تعاون کے نتیجے میں سامنے آنے والا ایک حالیہ ذریعہ ہے۔ دسمبر 2017 میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت اندازاً 28 لاکھ مربع کلومیٹر سمندر میں ماہی گیری پر پابندی لگا کر اسے الگ کر دیا گیا ہے۔ یہ علاقہ بحیرہ روم سے بھی بڑا ہے اور اس میں سائنس دانوں کو خطے کی ماحولیات اور تجارتی ماہی گیری کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی۔

یہ معاہدہ ماحول کو لاحق خدشات کے خلاف پیشگی اقدامات اٹھانے کے لیے حکومتوں کی آمادگی کا عملی مظاہرہ ہے۔ امریکہ کے علاوہ روس، ناروے، گرین لینڈ/ ڈنمارک، چین، جاپان، آئس لینڈ، جنوبی کوریا اور یورپی یونین نے ماہی گیری پر پابندی کے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

Two people on deck of boat filled with fish (© Marcel Mochet/AFP/Getty Images)
ایک نئے معاہدے کی بدولت خاص قسم کی مچھلیوں کے ذخیرے میں خطرناک حد تک کمی کو روکنے میں مدد ملے گی۔ (© Marcel Mochet/AFP/Getty Images)

برف کی موٹی تہوں کے سبب کبھی بحر آرکٹک میں ماہی گیری ناممکن ہوا کرتی تھی۔ مگر بڑھتی ہوئی گرمی نے قطبی برف اس قدر تیزی سے پگھلائی ہے کہ اب گرمیوں کے بعض موسموں میں یہاں وسطی علاقے کا 40 فیصد تک حصہ کھلا پانی  دکھائی دیتا ہے جس سے عالمی صنعتی بحری بیڑوں کے لیے قطب شمالی کے قریبی پانیوں میں ماہی گیری ممکن ہو گئی  ہے۔

عالمی قوانین کے تحت ہر ملک کے 370 کلومیٹر پر مشتمل خاص معاشی علاقے سے باہر ان پانیوں میں کوئی بھی ملک ماہی گیری کر سکتا ہے۔ تاہم سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماہی گیری پر پابندی کا معاہدہ کاڈ اور دوسری اقسام کی مچھلیوں کا تجارتی پیمانے پر شکار روک کر پہلے ہی سے نازک صورت حال سے دوچار آرکٹک کے ماحولیاتی نطام کو بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ آرکٹک کے سمندر میں کاڈ مچھلی سمندری پرندوں، وہیل، سیل اور قطبی ریچھوں سمیت بہت سی انواع کی سمندری زندگی کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے۔

سیکھے گئے اسباق

20 ویں صدی کے اواخر میں کھلے پانیوں میں بے ضابطہ ماہی گیری کے باعث، عالمی برادری کو پہلے ہی مچھلیوں کی تعداد میں تباہ کن کمی کا تجربہ ہو چکا ہے۔

1980 کی دہائی میں بہت سے ممالک کے تجارتی ماہی گیری سے وابستہ بحری بیڑے بحیرہ بیرنگ کے ‘ڈونٹ ہول’ کہلانے والے علاقے میں پولاک مچھلیاں پکڑنے کے لیے الاسکا کے ساحلوں سے بھی آگے چلے گئے۔ ڈونٹ ہول کسی ملک کی ملکیت نہیں ہے۔ 1990 کی دہائی تک پولاک مچھلیوں کی تعداد میں تاریخی کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔

ایسی ماحولیاتی تباہی کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے بچنے کی خاطر، امریکہ  دوسرے ممالک کی باہم مل بیٹھنے اور آرکٹک کے مستقبل سے متعلق بات چیت کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ دسمبر میں ہونے والی بات چیت میں آرکٹک کی ہمسائیگی میں واقع ممالک اور بڑے پیمانے پر ماہی گیری کرنے والے ممالک شامل تھے۔ اس بات چیت کے بعد فریقین نے اُس معاہدے پر اتفاق کیا جس کا مقصد ساحلوں سے دور تجارتی پیمانے پر مچھلی کے شکار کو باضابطہ بنانے کے ساتھ ساتھ کاڈ اور اُن مچھلیوں کی دیگر اقسام کا تحفظ  بھی شامل تھا جو بحر آرکٹک میں پانی گرم ہونے کے نتیجے میں مزید شمال کی جانب ہجرت کر سکتی ہیں۔

تجارتی ماہی گیری پر پابندی کے علاوہ، یہ معاہدہ آرکٹک کے سمندری نظام کی مشترکہ سائنسی تحقیق کی بھی بات کرتا ہے۔ ان ممالک کا یہ اتحاد معلومات کے تبادلے اور ماہی گیری کے حقوق پر ازسرنو غور کرنے کے لیے ہر دو سال بعد مل بیٹھے گا۔ جب تک مکمل اتفاق رائے حاصل نہیں ہو جاتا اس وقت تک آرکٹک کے بدلتے ہوئے ماحولیاتی نظام کی حفاظت کے لیے ماہی گیری پر پابندی برقرار رہے گی۔