امریکی 200 سال سے زائد عرصے سے انتخابات اس یقین کے ساتھ منعقد کرتے چلے آ رہے ہیں اُن کے ووٹ منصفانہ اور درست طریقے سے شمار کیے جائیں گے۔
اس یقین کی بنیاد معقول وجوہات پر ہے۔ اس کی ایک وجہ انتخابی نگرانوں کی ہے۔ یہ نگران ایسے مقامی رضاکار ہوتے ہیں جن کو ووٹروں کے شناخت نامے دکھانے کے بعد اپنے بیلٹ پیپر حاصل کرتے وقت نگرانی کرنے کی غرض سے تربیت دی جاتی ہے۔ بہت سے پولنگ سٹیشنوں پر ووٹوں کی گنتی کے وقت ہر ایک سیاسی پارٹی کا اپنا اپنا نمائندہ بھی موجود ہوتا ہے۔
تو پھر ووٹروں کے فراڈ کے بارے میں ہونے والی باتوں کے پیچھے کیا حقیقت ہے؟ لوگوں کے ایک بار سے زائد ووٹ دینے کی کیا حقیقت ہے؟ قانون کے پروفیسسر رچرڈ ہیسن نے پی بی ایس کے نیوز آور پروگرام کو بتایا، ” قطعاً ایسا نہیں ہوتا۔” ہیسن “الیکشن لا” کے نام سے بلاگ لکھتے ہیں۔
جو کوئی بھی امریکہ کے کسی بھی صدارتی انتخاب میں “ہیرا پھیری” کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کی راہ میں یہ حقائق کہ واحد پولنگ سٹیشن پر ہیرا پھیری کرنے سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی، پولنگ سٹیشن کھلے مقامات پر ہوتے ہیں اور ان کی عمدہ طریقے سے نگرانی کی جاتی ہے، بڑی رکاوٹیں بن کر کھڑے ہوں گے۔ ووٹر 50 ریاستوں میں واقع 100,000 پولنگ سٹیشنوں پر سرکاری طور پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ انتخابات کمیونٹی سنٹروں، لائبریریوں اور سکولوں کے بڑے بڑے ورزشی ہالوں جیسی کھلی جگہوں پر ہوتے ہیں۔ بےقاعدگیوں کا پتہ چلانے کے لیےانتخابی مبصرین کی تربیت انتخاب میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ بین الاقوامی مبصرین کو بھی انتخابات کی نگرانی کے لیے مدعو کرتا ہے۔
“الیکشن اسسٹنس کمشن” [انتخابی اہانت کے کمشن] کے ممبر، تھامس ہِکس نے حال ہی میں کہا، “ہمارا نظام مرکز گریز ہے۔ اور ایک مرکز گریز نظام کے ہوتے ہوئے آپ کو نظام تک رسائی حاصل کرنے کی خاطر لوگوں کی ایک فوج کی درکار ہوتی ہے۔
جیسا کہ انتخابی امور سے متعلق مالیات اور انتخاب کے ایک وکیل، کرِس ایشبی لکھتے ہیں، “انتخابات سے متعلق ہمارے قوانین میں غلطی اور دھوکہ دہی کے امکان کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی سطحوں پر ان سے بچنے کی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دنیا میں ایک ایسا نظام تشکیل پا گیا ہے جو دنیا کے منصفانہ ترین اور بہترین نظاموں میں سے ایک ہے اور جس پر ملک کے تمام شہریوں کو یقین اور اعتماد ہونا چاہیے۔”
یہ کتنا شفاف ہے؟ دھوکہ دہی سے ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ذرا غور کیجیے:
نیو یارک یونیورسٹی کے قانون کے سکول کا برینن مرکز برائے انصاف انتخابی شفافیت پر ایک سرکردہ حیثیت کا حامل ہے۔ یہ مرکز جعلی ووٹوں کی شرح 0.00004 اور0.0009 فیصد کے درمیان بتاتا ہے۔ یعنی 25 لاکھ ووٹوں میں سے ممکنہ طور پر ایک ووٹ جعلی ہو سکتا ہے۔
- کولمبیا یونیورسٹی کے پولٹیکل سائنس کے ایک ماہر نے ووٹوں کے فراڈ پر دو سال تحقیق کی اور اسے “کسی سخت مقابلے میں ہارنے والے کی طرف سے جھوٹے دعوے، شرارت اور انتظامی غلطی یا ووٹر کی غلطی” سے زیادہ بڑھکر کچھ نہیں ملا۔
- قانون کے ایک اور پروفیسر نے کسی دوسرے ووٹر کی جگہ ووٹ ڈالنے کے معاملات کی چھان بین کی۔ اسے ڈالے جانے ایک ارب ووٹوں میں سے … 31 ایسے ووٹ ملے جو جعلی ثابت ہوئے۔
- ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی نے دو مطالعاتی جائزے لیے اور یونیورسٹی کو متذکرہ بالا تعداد سے بھی کم تعداد میں دوسروں کی جگہ ووٹ ڈالنے کے واقعات ملے یعنی پانچ سال کی مدت میں پانچ ریاستوں میں 10 جعلی ووٹ۔
- ریاست کنساس کے سیکرٹری آف سٹیٹ کے دفتر نے 22 ریاستوں میں ڈالے گئے 8 کروڑ 40 لاکھ ووٹوں کا جائزہ لیا جس کے بعد فراڈ کے فقط 14 کیس سامنے آئے جنہیں مقدمہ چلانے کی خاطر آگے بھیج دیا گیا۔ فراڈ کی یہ شرح 0٫00000017 فیصد بنتی ہے۔
- ٹیکساس میں ووٹر فراڈ میں ملوث افراد پر سرکاری مقدمہ چلانے کے ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک عہدیدار سے جب فراڈ کے واقعات کے بارےمیں پوچھا گیا تو اُس نے بتایا کہ اس کے علم میں دوسرے شخص کی جگہ ووٹ ڈالنے کے سلسلے میں ایک مقدمے میں جرم ثابت ہوا اور ایک شخص نے اقبال جرم کیا۔ ان واقعات کا تعلق ریاست ٹیکساس میں 2002 سے لیکر 2014 کے درمیان ہونے والے انتخابات سے ہے۔
- آخر میں، امریکہ کے محکمہ انصاف نے انتخابات میں ہونے والے فراڈ کا پتہ چلانے کے لیے وفاقی سطح پر ایک یونٹ بنایا۔ 2002 سے لیکر 2014 تک ڈالے جانے والے ووٹوں میں سے اس یونٹ کے سامنے آنے والی فراڈ کی شرح 0٫00000013 فیصد تھی۔
امریکہ کے “ووٹنگ کے نظام کا شمار دنیا کے منصفانہ ترین اور بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ اس نظام پر تمام شہریوں کو یقین اور اعتماد ہونا چاہیے۔”
کرِس ایشبی
برینن سنٹر کے مطابق، ” ہر اطراف سے یہ فیصلہ سامنے آیا ہے کہ ووٹروں کے فراڈ بہت ہی خال خال پیش آنے والے واقعات ہیں۔ ان کی تعداد نہ تو کبھی اس سطح تک پہنچ سکی اور نہ ہی اتنی ہوتی ہے جو انتخاب میں ‘دھاندلی’ کے لیے درکار ہوتی ہے۔
وکیل ایل کارڈیناس فلوریڈا میں 2000ء میں صدارتی ووٹوں کی ہونے والی طویل دوبارہ گنتی میں ریپلکن پارٹی کی ٹیم کے سربراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 250 وکلاء نے یہ جاننے کے لیے ووٹوں کی جانچ پڑتال کی کہ آیا ووٹ قانونی طور پر ڈالے گئے تھے۔ 37 دنوں میں ہزاروں گھنٹوں کے کام کے بعد انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک ووٹ بھی دھوکہ دہی سے نہیں ڈالا گیا۔ انہوں نے پی بی ایس نیوز آور کو بتایا کہ جب آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی بات ہوتی ہے تو امریکہ”روشنی کی ایک کرن” بن کر سامنے آتا ہے۔