
جب 6 اگست 1965 کو صدر لنڈن جانسن نے ووٹ دینے کے حقوق کے قانون کی منظوری کے لیے دستخط کیے تو امریکہ میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بیک جنبش قلم، جانسن نے نسلی امتیاز پر مبنی بنیادی طور پر جنوبی ریاستوں میں اپنائے گئے ووٹنگ کے اُن طریقوں کو یعنی افریقی نژاد امریکیوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھنے کو ختم کر دیا۔
اِن میں سے بہت سے طریقوں کا تعلق 1865ء میں ختم ہونے والی امریکی خانہ جنگی کے دور سے تھا جن میں خواندگی کے امتحانوں کا نفاذ اور ووٹ دینے کے لیے ٹیکس دہندہ ہونے جیسی شرائط شامل تھیں۔ یہ شرائط سیاہ فام شہریوں کے ووٹ دینے کے اُس حق کے استعمال کی راہ میں رکاوٹیں بنیں جس کی انہیں امریکی آئین کی 15ویں ترمیم میں ضمانت حاصل ہے۔
نسل، رنگ، مذہب، صنف یا قومیت کی بنیاد پر مبنی امتیازی سلوک کو غیرقانونی قرار دینے والے شہری حقوق کے قانون مجریہ 1964 کے فوری بعد، 1965 کے ووٹ دینے کے حقوق کے قانون نے امریکی شہری حقوق کی تحریک کی کامیابیوں کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔
جانسن کی سوچ کو متاثر کرنے والے واقعات
مڈلبری کالج ورمونٹ میں تاریخ کے پروفیسر اور شہری حقوق کے دور کے ماہر، جیمز رالف کہتے ہیں کہ جانسن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا (ایک ایسی پارٹی جو کسی وقت افریقی نژاد امریکیوں کے شہری حقوق اور سیاسی حقوق کی مخالف ہوا کرتی تھی) اور وہ جنوبی علاقے کے رہنے والے تھے اور اُن کا تعلق ریاست ٹیکساس سے تھا۔ اس کے باوجود وہ “جنوب کے سیاہ فام شہریوں کی سیاسی زندگی میں شرکت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اس وقت بھی تسلیم کرتے تھے جب انہوں نے جون 1964 میں شہری حقوق کے قانون پر دستخط کیے۔”

جنوبی عیسائی قیادت کی کانفرنس (ایس سی ایل سی) اور طلبا کی عدم تشدد کی رابطہ کمیٹی (ایس این سی سی) جیسی تنظیموں نے سیاہ فام ووٹروں کی رجسٹریشن کی مہموں کا آغاز کیا۔ مگر اُنہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر 18 فروری 1965 کو ایس سی ایل سی کی طرف سے میریون، الاباما میں منظم کیے گئے ایک مظاہرے پر نسلی علیحدگی پسندوں نے حملہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی افراتفری میں مظاہرین میں شامل، جمی لی جیکسن ریاستی پولیس کے سپاہی کی گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے۔
اس کے ردعمل میں مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور شہری حقوق کے دیگر سرگرم کارکنوں نے سیلما، الاباما سے لے کر ریاست کے دارالحکومت، منٹگمری تک 54 میل (87 کلومیٹر) لمبی ہائی وے کے ساتھ تین احتجاجی مارچوں کا پروگرام بنایا۔ اِن مارچوں کو مجموعی طور “سیلما تحریک” کا نام دیا گیا۔
اتوار 7 مارچ کو، ایس ایل سی سی کے ہوسیا ولیمز اور ایس این سی سی کے جان لیوس نے (جو بعد میں امریکی کانگریس کے رکن منتخب ہوئے) مارچ میں شامل 600 افراد کے ایک گروپ کی قیادت کرتے ہوئے سیلما، الاباما کے ایڈمنڈ پیٹس پل کو عبور کیا۔ پولیس نے ڈنڈے اور آنسو گیس استعمال کرتے ہوئے ظالمانہ طریقے سے پرامن طور پر مارچ کرنے والوں کو مارا پیٹا۔ یہ لوگ منٹگمری پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بہت سے اپنی جانیں بچا کر بھاگے۔ ریاستی پولیس کے ایک سپاہی نے لیوس کی کھوپڑی توڑ دی جس کے نتیجے میں اُن کا دماغ ہل گیا۔

نامہ نگاروں، فوٹو گرافروں اور ٹی وی کیمرے والوں نے اس منظر کی خبریں اور تصویریں بھجوائیں۔ اس دن کو “خونی اتوار” کا نام دیا گیا۔ رالف نے بتایا کہ صدمے سے دوچار قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور امریکیوں نے اپنے منتخب نمائندوں پر زور دیا کہ وہ جنوب کی نسلی تشدد کی حکومت کے خلاف کاروائی کرے اور ووٹنگ کے امتیاز کو ختم کرے۔
رالف کہتے ہیں کہ 15 مارچ کو جانسن نے سیلما کے واقعات کے بارے میں اپنا بھرپور ردعمل دیا۔ ملک بھر میں ٹیلی کاسٹ کیے جانے والے خطاب میں صدر نے اعلان کیا کہ ان کی انتظامیہ جنوبی سیاہ فام لوگوں کے حق رائے دہی کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرے گی۔ اس کے علاوہ، رالف نے بتایا کہ جانسن نے “وفاقی حکومت کو اس وقت براہ راست سیلما کے نصب العین کا ہمنوا بنا دیا جب انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام شہری حقوق کی تحریک کے اِن الفاظ سے اتفاق کرتے ہوئے کیا، ‘ اور … ہم … غلبہ پا لیں گے۔'”
رالف نے کہا کہ جانسن اور کنگ اس پر ہمیشہ متفق نہیں ہوتے تھے کہ تبدیلی کس طرح لائی جائے، “مگر 1963 سے لے کر 1965 تک انہوں نے شہری حقوق کے فروغ کے لیے ایک دوسرے کو انتہائی اہم شراکت کار سمجھا۔”
‘غلامی سے دوسری آزادی’
ووٹ دینے کے حقوق کے قانون کو بعض اوقات “غلامی سے دوسری آزادی” (یہ ابراہم لنکن کے 1863ء کے غلاموں کی آزادی کے اعلان کی طرف اشارہ ہے) بھی کہا جاتا ہے جس نے امریکہ کو بدل کر رکھ دیا۔

رالف کہتے ہیں کہ 1964 کے شہری حقوق کے بنیادی قانون کے بعد شہری حقوق کی تحریک کی قانون سازی کی یہ ایک اہم ترین کامیابی ہے۔ امریکہ کے جنوب میں نسلی علیحدگی کا دور ” شروع کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں جنوبی علاقوں کے سیاہ فاموں کی حق رائے دہی سے محرومی کا شمار بڑی وجوہات میں ہوتا ہے۔”
اس قانون کے تحت اُن علاقوں کی وفاقی نگرانی کا بندوبست کیا گیا جو نسلی امتیاز کے حوالے سے مسائل کی تاریخ رکھتے تھے۔ (زیادہ تر جنوب کے) اِن علاقوں میں امریکی محکمہ انصاف کے جائزے اور پیشگی اجازت کے بغیر انتخابی قوانین میں کسی قسم کی کوئی بھی تبدیلی کرنے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ یہ قانون اُن بہت سے قوانین میں پہلا قانون بھی تھا جن قوانین کے تحت افریقی نژاد معذور امریکیوں اور دیگر معذوروں کے قابل رسا مقامات پر ووٹ دینے کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا۔
قوانین میں تبدیلی
2013ء میں امریکہ کے سپریم کورٹ نے ایک مقدمے، شیلبی کاؤنٹی بنام ہولڈر کی سماعت کی اور بالآخر یہ فیصلہ سنایا کہ ووٹ دینے کے حقوق کی دفعات — سیکشن 4 — غیرآئینی ہے کیونکہ “مسائل کے حامل علاقوں” کے تعین کا فارمولا پرانا ہو چکا ہے۔

ووٹ دینے کے حقوق کے قانون کے ورثے کا خلاصہ بیان کرنا آسان نہیں ہے۔ 1965ء سے لے کر آج تک کانگریس اس قانون کی پانچ بار تجدید اور اس میں ترامیم کر چکی ہے۔ مگر رالف بتاتے ہیں، ” اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جنوبی ریاستوں میں افریقی نژاد امریکیوں کے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے اور افریقی نژاد امریکی عہدیداروں کی تعداد میں غیر معمولی اضافے میں اس (قانون) کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے۔”
کانگریس کی ریسرچ (تحقیقی) سروس کے مطابق 1964ء میں امریکی کانگریس کے دو افریقی نژاد امریکی رکن ہوا کرتے تھے۔ اج، امریکہ کے ایوان نمائندگان اور امریکہ کی سینیٹ کے ہر پانچ اراکین میں سے ایک کا تعلق رنگ و نسل کے اعتبار سے کسی نہ کسی اقلیتی گروہ سے ہے جس نے 116ویں کانگریس کو امریکی تاریخ کی متنوع ترین کانگریس بنا دیا ہے۔