
ریاست نیویارک میں واقع امریکی فوجی اکیڈمی، ویسٹ پوائنٹ “بفلو سولجرز” نامی رجمنٹوں کے فوجیوں کو خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ ان فوجیوں کا تعلق ابتدا میں بنائی جانے والی افریقی نژاد امریکی رجمنٹوں سے تھا۔ وہ اپنے دیگر فرائض کے علاوہ، اکیڈمی کے سفید فام کیڈٹوں کو گھڑسواری بھی سکھایا کرتے تھے۔
1866 میں تشکیل دی گئی بفلو سولجرز کے سپاہیوں نے 1898 کی ہسپانوی-امریکی جنگ میں حصہ لیا اور بہادری میں نام کمایا۔ بفلو سولجرز کے ایک درجن سے زائد جوانوں کو ملک کا سب سے بڑا اعزاز، کانگریشنل میڈل آف آنر دیا گیا۔
کانسی کے نئے مجسمے کے ذریعے بفلو سولجرز کی گھڑسواری کی مہارت کی شہرت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ 1907–1947 کے دوران یہ فوجی دریائے ہڈسن پر واقع ویسٹ پوائنٹ فوجی اکیڈمی میں کیڈٹوں کو گھڑسواری کی تربیت دیا کرتے تھے۔ یہ مجسمہ 31 اگست کو ویسٹ پوائنٹ اکیڈمی میں نصب کیا گیا تھا اور 10 ستمبر کو ایک تقریب میں سرکاری طور پر اس کی نقاب کشائی کی جائے گی۔

یہ مجسمہ افریقی نژاد امریکی سٹاف سارجنٹ سینڈرز ایچ میتھیوز سینیئر کا ہے جنہوں نے 1940 کی دہائی میں ویسٹ پوائنٹ اکیڈمی میں خدمات انجام دیں۔ اُن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ویسٹ پوائنٹ میں خدمات انجام دینے والے آخری بفلو سولجر ہیں۔
امریکی فوجی اکیڈمی کا مجسمے کے بارے میں ایک ویڈیو میں کہنا ہے، ” بفلوسولجرز کا ورثہ آنے والے کیڈٹوں کی حوصلہ افزائی کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔”
یہ مجسمہ ٹیکساس کے آرٹسٹ، ایڈی ڈکسن نے بنایا ہے۔ اُن کے تراشے گئے مجسمے امریکہ اور دنیا بھر میں تاریخی مقامات اور قومی پارکوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
1800 کی آخری دہائی میں بفلو سولجرز کی رجمنٹوں کو مقامی امریکیوں کے خلاف لڑنے کے لیے مغربی سرحد پر بھیجا گیا تھا۔ اس سے ایک پیچیدہ ورثے نے جنم لیا۔ واشنگٹن کے سمتھ سونین انسٹی ٹیوشن نے اس ورثے کا جائزہ لیا ہے تاکہ “جس حکومت کے لیے وہ لڑے اُس حکومت کے ساتھ اِن فوجیوں کے تعلقات کے ساتھ ساتھ اُن مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات جیسے مشکل سوالات کے جوابات بھی دینے کی کوشش کی گئی ہے جن کے خلاف وہ لڑے۔”
افریقی نژاد امریکیوں کی تاریخ اور ثقافت کے قومی عجائب گھر نے اِن کی تاریخی فوجی خدمات اور ثقافتی اثرات کا جائزہ لیا ہے جبکہ امریکی انڈینز [امریکہ کے مقامی باشندوں] کے قومی عجائب گھر نے مغرب میں اِن فوجیوں کی امریکی انڈینز کے خلاف لڑائی کا ازسرنو جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح امریکی تاریخ کے قومی عجائب گھر نے اِن فوجیوں کی وردیاں اتارنے کے بعد کی اُن کی عام زندگیوں پر روشنی ڈالی ہے۔