ویغوروں پر کی جانے والی چین کی زیادتیوں پر امریکہ کی تنقید

واشنگٹن میں قائم ریڈیو فری ایشیا کے رپورٹروں کے رشتہ داروں کی حراست سمیت، امریکہ نے شنجیانگ ویغور کے خود مختار علاقے (شنجیانگ) میں ویغور لوگوں اور دیگر مسلمانوں کے خلاف چین کی زیادتیوں پر اپنی روز بروز بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

محکمہ خارجہ کی ترجمان ہیدر نوارٹ نے کہا کہ چینی حکام اِن صحافیوں کے درجنوں رشتہ داروں کو محض اس لیے ڈرا دھمکا اور حراست میں لے رہے ہیں کیونکہ وہ “اپنا کام کر رہے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ چین میں مذہب کی آزادی پر بہت زیادہ پابندیوں، وسیع پیمانے پر لوگوں کو حراست میں لیے جانے اور لوگوں کی نگرانی کیے جانے پر امریکہ کی تشویش میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ خارجہ کے حکام کے اندازے کے مطابق شنجیانگ میں ہزاروں لاکھوں ویغور لوگوں کو “تطہیری” مراکز میں غیرمعینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا رہا ہے۔

نوارٹ نے ریڈیو فری ایشیا کی ویغور نشریاتی سرس کے اُن صحافیوں سے ملاقات کی جن کے چین میں موجود خاندانوں کے افراد  کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ ویغور مسلمان ہیں اور شنجیانگ میں اِن کی اکثریت ہے۔ چینی حکام یہاں اختلاف رائے کو انسداد دہشت گردی کے نام پر دبا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ” ہمارا چین سے یہ کہنا ہے کہ اِن بے نتیجہ پالیسیوں کو ختم کریں اور اُن سب لوگوں کو رہا کریں جنہیں من مانے طریقے سے حراست میں لیا گیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو دوسری حکومتوں پر ویغور افراد کو زبردستی واپس بھیجنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی چینی کوششوں پر بھی تشویش ہے۔

ریڈیو فری ایشیا چین، تبت، شمالی کوریا، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور برما میں اپنے سامعین کے لیے مقامی خبریں اور معلوماتی پروگرام نشر کرتا ہے۔ گورنروں کے ایک آزاد نشریاتی بورڈ کے ذریعے امریکی حکومت ریڈیو فری ایشیا کی مالی معاونت کرتی ہے۔ ویغور صحافیوں نے اس خود مختار خطے میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی زیادتیوں کے بارے میں بڑی تفصیل سے رپورٹنگ کی ہے۔