
بعض اوقات یہ ٹیلی فون کال ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ ٹیکسٹ میسیج ہوتا ہے۔ یہ بات ریڈیو فری ایشیا میں کام کرنے والی خاتون صحافی گلچہرہ ہوجہ نے 2018ء میں بتائی۔ تاہم یہ جس شکل میں بھی ہو آپ کو دیا جانے والا پیغام ایک ہی ہوتا ہے: “آپ تو بیرونِ ملک رہ سکتے ہیں مگر آپ کے اہل خانہ اب بھی چین میں رہ رہے ہیں۔ آپ ویسے کریں جیسے ہم کہتے ہیں.”
اس صورت حال کا چین سے باہر رہنے والے چینی ویغوروں اور دیگر نسلی مسلمان اقلیتوں کو بار بار سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ لوگ چین کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے یا بیرونی ممالک پر پولیس کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہوتا، پھر بھی چینی سکیورٹی فورسز بیرونی ممالک میں رہنے والے ویغوروں تک پہنچ جاتی ہیں اور انہیں دھمکیاں دیتی ہیں۔ وہ ایسا اس کے باوجود کرتی ہیں کہ یہ لوگ غیرملکی شہری ہیں اور اب چینی شہری نہیں رہے۔

گزشتہ کئی سالوں سے چینی حکومت نے ویغوروں سمیت مسلمانوں کی ثقافت اور مذہبی عبادات کو انتہائی محدود کر دیا ہے۔ انہیں چینی زبان اور روایات کو اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ چینی حکام نے کم از کم آٹھ لاکھ اور امکانی طور پر بیس لاکھ افراد کو حراستی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔ اِن کیمپوں کی اکثریتی تعداد چین کے شنجیانگ کے خودمختار خطے میں واقع ہے۔
آج کل چینی حکومت ویغور خاندانوں کے بیرونِ ملک رہنے والے افراد کو ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
کچھ صورتوں میں چین کی سرکاری سکیورٹی فورسز بیرونی ممالک میں رہنے والے ویغوروں کے شنجیانگ میں رہنے والے خاندانوں کو حراست میں لے رہی ہیں یا انہیں نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اِن لوگوں کو ڈرا دھمکا کر اِن کے ملک سے باہر مقیم عزیزوں کو شنجیانگ واپس آنے پر مجبور کریں۔ ہوجہ بتاتی ہیں کہ بیرونِ ملک سے اِن ویغوروں کی چین واپسی کی صورت میں یقینی طور پر انہیں حراستی کیمپوں میں بھیج دیا جائے گا۔
چینی سکیورٹی فورسز [غیر ممالک میں مقیم ویغوروں کے] چین میں رہنے والے دوستوں اور خاندان کے افراد کو استعمال کرتی ہیں۔ یہ لوگ چین میں یرغمالیوں کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ اگر سکیورٹی فورسز اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں تو وہ انہیں غائب کرنے کی دھمکیاں دیتی ہیں۔
بعض دیگر صورتوں میں چینی حکام بیرون ملک رہنے والے ویغوروں کو غیر ممالک میں رہنے والے دوسرے ویغوروں کی جاسوسی کرنے کی کوشش کرتی ہیں جس کا مقصد چینی حکومت کی پالیسوں کے ناقدین کو ختم کرنا ہوتا ہے۔
ہوجہ نے کانگریس کو 2018ء میں بتایا، “میری خالائیں، چچیاں، ممانیاں، خالہ زاد، چچا زاد، ماموں زاد بہن بھائی یعنی 20 سے زائد افراد کو سرکاری اہل کار پکڑ کر لے گئے ہیں۔ اُن کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ مگر مجھے پکا شک ہے کہ اُنہیں انہی کیمپوں میں زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔”
ہوجہ نے بتایا کہ میرے خاندان کو “میری آزادی اور امریکہ میں میرے بطور صحافی کام کرنے کی ایک بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔”