ویغور آرٹ کے ذریعے بحران کا سامنا کر رہے ہیں

گزشتہ چند برسوں میں ویغور آرٹ میں تبدیلی آئی ہے اور نسل در نسل ارتقاء پانے والی روایات اور کارکردگی کا پیچیدہ مجموعہ زیادہ تاریک ہو گیا ہے۔

میسرعبدالاحد ہندن شاعرہ ہیں اور اِن کا تعلق غلجاہ، شنجیانگ کے خود مختار علاقے سے ہے۔ وہ اب ترکی میں رہتی ہیں۔ انہوں نے مارچ 2021 کی WEghur Stories پوڈ کاسٹ کو بتایا، “بعض اوقات میں اپنی اداسی پر قابو نہیں پا سکتی اور کوئی ایسی چیز لکھ دیتی ہوں جو واقعی افسردہ کر دینے والی ہوتی ہے۔”

ہندن اور دیگر ویغور فنکار عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کی اُن پالیسیوں کا جواب دے رہے ہیں جو ویغور ثقافت کے لیے خطرہ بن چکی ہیں اور بیرون ملک رہنے والے ویغوروں کو اپنے وطن واپس جانے سے خوفزدہ کیے ہوئے ہیں۔

پی آر سی شنجیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے جہاں اس نے 2017 سے اب تک 10 لاکھ سے زیادہ ویغوروں، قازقوں اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کو حراست میں لے رکھا ہے اور جبری مشقت اور نس بندی میں مصروف ہے

پی آر سی نے شنجیانگ کو نگرانی کرنے والی ریاست میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ ویغور ثقافت پر حملے کر رہا ہے، مساجد کو مسمار  کر رہا ہے، ممتاز شاعروں اور فنکاروں کو گرفتار کر رہا ہے اور ویغور زبان پر پابندی لگا رہا ہے۔

ہندن نے ستمبر میں Uyghur Poetry in Exile [جلاوطنی میں ویغور شاعری] کے ایک پینل کو بتایا کہ ویغور فنکاروں کا کام اُن کی مشکل زندگیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ “براہ کرم جو کچھ ہم لکھ  رہے ہیں اسے نہ صرف شاعری بلکہ ایک ایسی مظلوم قوم کی آواز سمجھا جائے جو نہ صرف مدد کے لیے پکار رہی ہے بلکہ وہ بہادری بھی سمجھا جائے جس سے وہ آزادی کے لیے لڑ رہی ہے۔”

ہندن کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بحران سے پیدا ہونے والے جذبات کے پس منظر میں شاعری کی جائے۔ انہوں نے شنجیانگ میں ویغوروں اور دیگر مذہبی اور نسلی اقلیتی گروہوں کے افراد کی پی آر سی کی طرف سے وسیع پیمانے پر کی جانے والیں نظربندیوں پر مبنی ایک ناول، “خیر-خوش، کوئش” (الوداع، سورج) بھی لکھا ہے۔

مقدس مجید ایک ویغور ماہر تعلیم اور آرٹسٹ ہیں اور فرانس میں رہتی ہیں۔ وہ WEghur Stories [ویغور کہانیوں] کے نام سے ایک پوڈ کاسٹ کی میزبانی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا بھر کے ویغور اپنے آبائی وطن سے جذباتی طور پر منسلک ہیں اور یہ کہ آرٹ  بہت سے لوگوں کو وہاں ہونے والے واقعات سے جڑا ہوا محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے۔

پیچھے وطن میں موجود رشتہ داروں کے خلاف پی آر سی کی انتقامی کاروائیوں کے خوف نے کچھ  ویغور آرٹسٹوں کو اپنا کام  اصلی ناموں کی بجائے نقلی ناموں سے شائع کرنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک ڈیجیٹل آرٹسٹ، یٹ سُو ہیں۔ وہ ویغوروں کی حالت زار کو اجاگر کرنے کے لیے ڈراونے خاکے استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی ایک مثال اوپر دیا ہوا یہ خاکہ ہے جس میں پی آر سی سے نکلتے ہوئے ہاتھ ہیں جن کی پہنچ دور تک دکھائی دیتی ہے۔ یہ آرٹ پی آر سی کے ملکی سرحدوں سے باہر اُس بین الاقوامی جبر کی عکاسی کرتا ہے جس کے ذریعے ویغوروں کو زبردستی وطن واپس لانے کے ساتھ  ساتھ انہیں خاموش کرانے اور ان کی فعالیت کو دبانے کی دیگر کوششیں بھی شامل ہیں۔

کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی کی پروفیسر، گلدانہ سلیم جان نے ‘کیمپ البم‘ کے نام سے ایک ملٹی میڈیا پلیٹ فارم کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ ایک ایسا فورم  ہے جہاں شنجیانگ کے لوگ انتقامی کاروائیوں کے خوف سے آزاد آرٹ اور شاعری پوسٹ کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد چین سے باہر رہنے والے ویغوروں اور دوسری مسلم کمیونٹیوں کے درمیان یکجہتی کو فروغ دینا ہے۔

سلیم جان پہلے “یی یاوکو” کا نقلی نام استعمال کیا کرتی تھیں۔ فروری 2020 کے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، “آرٹ اُن اقلیتی آبادیوں کو خود کو بااختیار بنانے اور خود کی نمائندگی کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو ایک طویل عرصے سے [اپنی] آواز اور آزادی سے محروم ہیں۔ آرٹ مشکل ترین حالات میں بھی  طاقت اور اختیار کا مذاق اڑانے کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو لوگوں کو اِن [حالات] سے نمٹنے میں مدد کر سکتا ہے۔”