
چین میں مسلمان ویغور باشندوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریوں کی داستان، ‘ریڈیو فری ایشیا’ میں ویغور زبان کے عملے میں شامل امریکہ میں مقیم چھ صحافیوں کے لیے ذاتی لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی ‘تعلیم نو کیمپوں’ میں ہزاروں اور ممکنہ طور پر لاکھوں کی تعداد میں زیرحراست افراد میں ان کے درجنوں اہل خانہ بھی شامل ہیں۔
ان لوگوں میں عمررسیدہ والدین، بھائی، بہنیں، سسرالی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں۔ ریڈیو فری ایشیا کے مطابق چینی حکام سنکیانگ میں رہنے والے ایسے افراد کو استعمال کر رہے ہیں جن کے رشتہ دار امریکہ میں بطور صحافی کام کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد سنکیانگ ویغور خودمختار خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی رپورٹنگ بند کرانے کی خاطر ان صحافیوں کو مجبور کرنا اور ان پر دباؤ ڈالنا ہے۔
سنکیانگ میں بچوں کے مقبول ٹیلی ویژن شو کی سابقہ میزبان گل چہرہ ہوجہ کے قریباً دو درجن رشتہ داروں کو گرفتار کیاجا چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں ”جب میرے بھائی کو حراست میں لیا گیا تو میری والدہ نے پولیس سے پوچھا کہ آپ میرے بیٹے کو کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟” ہوجہ کے مطابق پولیس افسر نے ان کے اہل خانہ کی گرفتاری کی وجہ امریکہ میں ہوجہ کی رپورٹنگ بتائی۔
بڑے خبر رساں ادارے چین کے اس مغربی حصے میں پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھانے کا سہرا اکثر ریڈیو فری ایشیا اور اس کی ویغور سروس کے سر باندھتے ہیں۔
وزیر خارجہ مائیکل پومپئو نے چین کی جانب سے بڑی تعداد میں ویغور باشندوں کو تعلیم نو کیمپوں میں ڈالنے کی مذمت کی ہے ”جہاں انہیں شدید قسم کی سیاسی نظریات اختیار کرنے کا کہنے کے ساتھ ساتھ دیگر ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مذہبی عقائد کو ختم کردیا جاتا ہے۔”
ویغور باشندوں کے حق میں آواز
امریکی شہری یا امریکہ کے مستقل رہائشی ریڈیو فری ایشیا کے یہ چھ صحافی ایسی خبریں اکٹھی کرتے ہیں جو چین میں ریاست کے زیرانتظام چلنے والا میڈیا عوام تک کبھی نہیں پہنچاتا۔
ریڈیو فری ایشیا ایک نجی اور غیرمنفعتی ملٹی میڈیا کی ایسی خبر رساں کارپوریشن ہے جس کی مالی معاونت امریکی حکومت کرتی ہے۔ یہ ادارہ ایشیا کے بند معاشروں میں رہنے والے لوگوں کو غیرسنسرشدہ خبریں دیتا ہے۔ سگنل جام کرنے اور انٹرنیٹ بند کیے جانے کے باوجود اس کی نشریات ویغور سمیت نو زبانوں میں چین، تبت، شمالی کوریا، ویت نام، کمبوڈیا، لاؤس اور برما کے سامعین تک پہنچتی ہیں۔

ڈپٹی ایڈیٹر 45 سالہ مامت جان جمعہ بتاتے ہیں کہ ان کے تین بھائی زیرحراست یا جیل میں ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ ان کے دوسرے تین بہن بھائی بھی قید میں ہو سکتے ہیں۔ ان کا اپنی بیمار بیوہ ماں سے رابطہ نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں، ”جو چیز مجھے آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان مصائب کا سامنا کرنے والے میرے عزیز اکیلے نہیں ہیں۔ ہر ویغور کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اگر ہم ان کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے تو پھر کوئی ان کے حق میں کھڑا نہیں ہو گا۔”
53 سالہ شہرت ہوشور 20 سال قبل اپنی سیاسی تحریروں کے باعث جانچ پڑتال کی زد میں آنے کے بعد سنکیانگ سے فرار ہوئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کا ایک بھائی جیل میں ہے اور ان کی 78 سالہ بوڑھی والدہ کو حال ہی میں حراست میں لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے، ”بیشتر لوگوں کو یہ علم نہیں ہوتا کہ انہیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ تاہم میرے اہلخانہ پر ان کی گرفتاری کا سبب بالکل واضح ہے۔”
ویغور سروس میں 17 برس سے کام کرنے والی ہوجہ بتاتی ہیں کہ وہ کامیاب پیشہ ورانہ زندگی، اپنا گھر، والدین، دوست اور پرستار پیچھے چھوڑ کر آئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”آپ کو قربانی دینا پڑتی ہے۔ آزادی مفت میں نہیں ملتی۔” ان کے بوڑھے والدین کو مارچ میں قید سے رہا کیا گیا ہے۔
(State Dept.)47 سالہ قربان نیاز گریجوایشن کرنے امریکہ آئے اور یہیں رہ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جونہی انہوں نے ریڈیو فری ایشیا میں کام کرنا شروع کیا تو چینی حکام نے سنکیانگ میں ان کے اہلخانہ کو پکڑنا شروع کر دیا جن میں ان کا چھوٹا بھائی بھی شامل ہے جسے ریاستی سکیورٹی کے اہلکار مئی 2017 میں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
1999 سے ریڈیو فری ایشیا سے وابستہ 53 سالہ جلیل کاشغری نے بتایا کہ ان کا بھائی، سالی اور بہت سے کزن زیرحراست ہیں۔ انہیں سنکیانگ میں چین کی جانب سے ویغور باشندوں سے بدسلوکی سامنے لانے کے اپنے کام پر فخر ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ان کے بیشتر ویغور رشتہ داروں کو وہ حقوق اور بنیادی آزادیاں حاصل نہیں ہیں جو انہیں امریکہ میں حاصل ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”یہاں ہمارے پاس اپنے لوگوں کو اظہار کی کچھ آزادی فراہم کرنے اور دنیا کو بتانے کا موقع ہے کہ اس خطے میں ویغور باشندوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے ویغور لوگوں کو یہ موقع میسر نہیں تھا۔”
دباؤ کا سامنا
48 سالہ ایسیت سلیمان کا خیال ہے کہ سنکیانگ میں ان کے دو بھائیوں اور سسرالیوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ ان کی والدہ کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔
سلیمان نے اپنی والدہ کو نہیں بتایا تھا کہ وہ کہاں کام کرتے ہیں۔ تاہم ان کی والدہ کو تب اس کا علم ہوا جب تین پولیس اہلکاروں نے ان کے دروازے پر دستک دی اور بتایا، ”تمہارا بیٹا امریکہ میں چین کے خلاف صحافتی کام کرتا ہے۔” انہوں نے خبردار کیا، ”اگر اس نے یہ کام نہ چھوڑا تو نتیجہ اچھا نہیں ہو گا۔”
ان کا کہنا ہے، ”یہ مجھ پر ایک بہت بڑا دباؤ ہے مگر یہ میرا کام ہے اور میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔”
نائب صدر پینس نے جولائی میں دفتر خارجہ کے زیراہتمام مذہبی آزادی کے فروغ پر منعقدہ پہلے وزارتی اجلاس میں دنیا بھر سے آئے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ”امریکہ کل بھی مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے کھڑا تھا، آج بھی کھڑا ہے اور ہمیشہ کھڑا رہے گا۔”
دفتر خارجہ کی جاری کردہ انسانی حقوق سے متعلق تازہ ترین رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ چین نے دہشت گردی کی روک تھام کی آڑ میں ”سخت جابرانہ سکیورٹی اقدامات کا نفاذ کیا ہے اور سیاسی و مذہبی نقطہائے نظر کا پرامن اظہار کرنے والے لوگوں کو گرفتار، قید ار ہراساں کیا جاتا ہے۔”