
جوہیر الحام کی عمر اس وقت 18 برس تھی جب 2013ء میں وہ اور اُن کے والد امریکہ جانے کے لیے جہاز پر بیٹھنے ہی والے تھے کہ چینی حکام نے انہیں روکا اور اُن کے والد کو گرفتار کر لیا۔ اپنے والد کے اصرار پر جوہیر اکیلی جہاز پر بیٹھ گئیں۔
جوہیر گزشتہ پانچ سالوں سے اپنے والد الحام توہتی کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں۔ اُن کے والد کو ویغور ثقافت کے احترام کی حمایت کرنے کی وجہ سے باقیماندہ زندگی جیل میں گزارنے کی سزا دی گئی ہے۔
جوہیر اور توہتی ویغور مسلمان ہیں۔ جوہیر کے والد بین الاقوامی شہرت کے حامل بیجنگ کے ایک مصنف اور ایک ماہر معاشیات ہیں۔ وہ ویغوروں، ہن اور دیگر چینی نسلی گروہوں کے مابین بین الثقافتی مسائل کے بارے میں لکھتے تھے۔
جوہیر نے بتایا، “ایک دوسرے کو سمجھنے میں لوگوں کی مدد کرنے کی خاطر وہ ایک قسم کا پل بنانا چاہتے تھے۔” جوہیر محکمہ خارجہ کی دینی علما کی مذہبی آزادی کو فروغ دینے کی کانفرنس میں شرکت کے لیے واشنگٹن آئیں ہوئیں ہیں۔ 16 سے 18 جولائی تک ہونے والی اس کانفرنس میں مختلف حکومتوں، تنظیموں اور مذاہب کے راہنما ایک جگہ اکٹھے ہوئے ہیں۔

جوہیر نے کہا کہ اس کے برعکس توہتی کے “آزادی تقریر کا استعمال، مذہبی آزادی کا اُن کا دانشوارانہ دفاع، ویغوروں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے کی اُن کی جدوجہد کو چینی برداشت نہ کر سکے۔” ویغوروں کے ساتھ کام کرنے کی بجائے “چینی حکومت نے ہماری ثقافت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔”
2017ء سے لے کر آج تک چینی حکام دس لاکھ سے زائد ویغوروں، قازقوں اور دیگر مسلمان نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شنجیانگ، چین میں قید میں ڈال چکے ہیں۔ اُن پر تشدد کیا جاتا ہے، اُن کو اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارتی کی تعریف کریں۔
جوہیر نے بتایا کہ امریکہ آنے کا فیصلہ “میرا اب تک کیا جانے والا بہترین فیصلہ ہے۔” چین میں “حکومت صرف یہ چاہتی ہے کہ آپ اُس کی بات پر یقین کریں۔” وہ سوچتے ہیں کہ اگر آپ کسی مذہب پر یقین رکھتے ہیں تو “آپ پر قابو پانا زیادہ مشکل ہو جائے گا۔”