ویغور مصنفین اپنے وطن میں کی جانے والی زیادتیوں کی تفصیلات بیان کر رہے ہیں

 گلبہار ہیتیواجی کی کتاب کے سرورق پر چھپنے والی اُن تصویر (© Alain Jocard/AFP/Getty Images)
فرانس میں رہنے والی گلبہار ہیتیواجی ویغور ہیں اور شنجیانگ کے ایک حراستی کیمپ میں زیرحراست رہ چکی ہیں۔ اس دوران اُن کے ساتھ جو زیادتیاں کی گئیں تھیں اُن کا احوال انہوں نے ایک کتاب میں بیان کیا ہے۔ (© Alain Jocard/AFP/Getty Images)

جب گلبہار ہیتیواجی فرانس میں ایک دہائی گزارنے کے بعد نومبر 2016 میں شنجیانگ، چین واپس آئیں تو وہ ڈراؤنے خواب جیسی صورت حال سے دوچار ہوگئیں۔ اُنہیں اُن کے آجر نے ریٹائرمنٹ کے کاغذات مکمل کرنے کے بہانے بلایا۔ اس کے بجائے مقامی حکام نے ہیتی واجی کو گرفتار کیا اور اُنہیں حراستی کیمپ میں بھیج دیا۔

ان کی کہانی نئی نہیں۔2017 سے عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) نے 10 لاکھ سے زیادہ ویغوروں کو جن کی اکثریت مسلمان ہے اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں کے ارکان کو اسی طرح کے حراستی کیمپوں میں بند کر رکھا ہے۔

ہیتیواجی دو سال سے زیادہ عرصے تک حراست میں رہنے کی اپنی فرانسیسی زبان میں لکھی جانے والی روداد میں لکھتی ہیں، “جب رات کے وقت محافظوں کے قدموں کی چاپوں سے ہم جاگ اٹھتے تو میرے ذہن میں سو بارہا یہ خیال آیا کہ ہماری پھانسی کا وقت آن پہنچا ہے۔” اِن کی کتاب کا فرانسیسی نامRescapée du goulag chinois   [چینی گولاگ سے زندہ بچ نکلنے والے] ہے اور روزنامہ “دا گارڈین” نے اس کے اقتباسات شائع کیے ہیں۔

فرانسیسی حکومت کی مداخلت پر اگست 2019 میں رہائی پانے والی ہیتیواجی کہتی ہیں کہ رہائی سے قبل انہیں تشدد اور دیگر زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔  

ہیتیواجی کا شمار  پی آر سی کے حراستی کیمپوں سے زندہ بچ نکلنے والے اُن افراد میں ہوتا ہے جن کی کہانیاں بین الاقوامی غم و غصے کو بڑہانے کا باعث بن رہی ہیں۔ ہیتیواجی اور پی آر سی کی نظر بندی سے بچ نکلنے والی ایک اور خاتون، مہرگل ترسن  نے ویغور ٹربیونل کے سامنے گواہی دی۔ یہ ٹربیونل وکلاء، ماہرینِ تعلیم اور این جی اوز کے نمائندوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی گروپ ہے جو کہ ایک غیر عدالتی ادارہ ہے۔ یہ ٹربیونل شنجیانگ میں ویغوروں اور دیگر افراد کے خلاف پی آر سی کی زیادتیوں کی تحقیقات کے لیے 2020 میں برطانیہ میں قائم کیا گیا تھا۔

جب ترسن مئی 2015 میں خاندان سے ملنے کے لیے مصر سے شنجیانگ واپس آئیں تو انہیں حراست میں لے لیا گیا، اور ان کے بیک وقت پیدا ہونے والے تین نوزائیدہ بچے بھی ان سے لے لیے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں پوچھ گچھ، تنہائی اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

 کھڑکی سے باہر دیکھتی ہوئی مہرگل ترسن (State Dept./D.A. Peterson)
مہرگل ترسن نے پی آر سی میں حراست کے دوران ہونے والے اپنے تجربات کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔ ( Dept./D.A. Peterson)

انہوں نے جون 2021 میں ٹربیونل کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا، (پی ڈی ایف، کے بی 162)  “جب بھی مجھے بجلی کا کرنٹ لگایا جاتا تو میرا پورا جسم بری طرح لرزنا شروع کر دیتا تھا اور مجھے اپنی رگوں میں درد محسوس ہوتا تھا۔ میرے ذہن میں خیال آتا تھا کہ اس [عذاب] کو مزید جھیلنے کی بجائے مجھے مر جانا چااہیے۔ لہذا میں نے اُن کی منتیں کیں کہ وہ مجھے مار ڈالیں۔”

جب انہیں رہا کیا گیا تو انہیں بتایا گیا کہ ان کا ایک بیٹا صحت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے فوت ہو گیا ہے۔ دسمبر 2021 میں ویغور ٹریبونل کے قانونی سکالروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پی آر سی نے انسانیت کے خلاف جرائم  کا ارتکاب کرنے کے ساتھ ساتھ  ویغوروں کی نسل کشی کا ارتکاب بھی کیا ہے (پی ڈی ایف، کے بی 789)۔

ایسے میں جب زیر حراست رہنے والے یہ لوگ شنجیانگ میں اپنے اپنے تجربات بیان کر رہے ہیں اسی دوران بین الاقوامی سطح پر ویغوروں کی حراستوں کو منظرعام پر لانے کی کوششوں کو ناکام بنایا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے مطابق اپریل 2017 میں ویغور حقوق کے وکیل، ڈولکن عیسیٰ کو مقامی مسائل پر ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔

ایچ آر ڈبلیو نے کہا ہے کہ عیسیٰ کو اقوام متحدہ کے اجلاس سے روکنا “چین پر تنقید کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ روا رکھے جانے والےسلوک اور اُن کے تحفظ کے بارے میں بڑے خدشات کی طرف اشارہ کرتا ہے کیونکہ وہ [کارکن] اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اُن طریقہائے کار کے مطابق چلنا چاہتے ہیں جن کا مقصد سب کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔”

ترسن نے جنوری میں جرمن صحافی، آندریا ہوفمین کے ہمراہ اپنی روداد جرمن زبان میں ” Ort ohne Wiederkehr” [ایسی جگہ جہاں سے واپسی نہیں ہوتی]  کے عنوان سے لکھی اور اسے شائع کیا۔

2018 میں امریکی کانگریس کے ایک پینل کو انہوں نے بتایا، “[میں] نے چین کے چھپے ہوئے حراستی کیمپوں کے بارے میں دنیا کو بتانے کا فیصلہ کیا تاکہ ان لوگوں کو جنہوں نے مجھے اور دوسروں کو تشدد کا نشانہ بنایا، اُن کے کیے کی سزا دی جا سکے اور کیمپوں میں نظربند معصوم لوگوں کی آوازیں سنی جا سکیں۔”

حالیہ واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پی آر سی کے حراستی کیمپوں سے زندہ بچ جانے والوں کی کہانیوں کا اثر ہو رہا ہے۔ اکتوبر2021 میں امریکہ، فرانس، لکسمبرگ، بیلجیئم اور 39 دیگر ممالک نے من مانی حراستوں اور دیگر زیادتیوں کی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اقوام متحدہ میں ایک مشترکہ بیان میں پی آر سی پر زور دیا کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے اور آزاد مبصرین کو شنجیانگ تک “فوری، بامعنی اور بلا روک ٹوک رسائی” کی اجازت دے۔