
ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) ویغور اور دیگر مسلمان اقلیتوں پر بے بنیاد مقدمات چلانے، اور بے گناہ لوگوں کو برسوں قید کی سزائیں دینے میں تیزی لا رہا ہے۔
انسانی حقوق کی نگران تنظیم، “ہیومن رائٹس واچ” ( ایچ آر ڈبلیو) نے اپنی 24 فروری کی رپورٹ میں کہا ہے کہ شنجیانگ میں پی آر سی کا عدالتی نظام 250,000 ویغور اور دیگر نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قید کی سزائیں دے چکا ہے اور یہ کہ ایسے مقدمات سے جن کے بارے میں معلومات عام دستیاب ہیں، پتہ چلتا ہے کہ بہت سے مقدمات میں بناوٹی عدالتی کاروائیوں سے کام لیا گیا اور اِن میں ثبوت نہ ہونے کے برابر تھے۔
ایچ آر ڈبلیو کی چین پر تحقیق کرنے والی سینیئر محقق مایا وانگ کا “چین: شنجیانگ میں بے بنیاد قیدوں میں بے پناہ اضافہ” کے عنوان سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہنا ہے، “قانونی لبادے کے باوجود، شنجیانگ کی جیلوں میں قید زیادہ تر افراد وہ عام لوگ ہیں جنہیں اپنے روزمرہ کام کرنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے سزائیں دی گئی ہیں۔”
بیجنگ، ویغوروں اور دیگر اکثریتی مسلمان اقلیتی گروپوں کے انسانی حقوق کو شدت سے دبا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پی آر سی کے سلوک کو ویغوروں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ بیجنگ 2017ء سے لے کر اب تک ویغور اور دیگر مسلمان اقلیتی گروپوں کے دس لاکھ افراد کو نظربند چکا ہے اور اجتماعی نگرانی، جبری مشقت اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کی بڑی تعداد میں نس بندی کرتا ہے۔

جہاں پی آر سی کی ویغوروں کی نام نہاد “سیاسی تعلیم” کے کیمپوں میں نظربندی نے غم و غصہ پیدا کیا ہے، وہیں ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں توجہ باضابطہ مقدمات چلانے پر مرکوز کی گئی ہے۔ شنجیانگ کی عدالتوں نے 2017ء میں 99,326 افراد کو سزا دینے کے مقابلے میں 2018ء میں 133,198 افراد کو سزائیں دیں۔ صرف ایک سال میں سزاؤں میں 34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔۔
روزنامہ نیویارک ٹائمز کے مطابق شنجیانگ میں چین کے دیگر حصوں کے مقابلے میں قید کرنے کی شرح پانچ گنا سے زائد ہے۔
“بے بنیاد مقدمات چلانے” کی بنیاد 2016ء سے چلائی جانے والی اُس مہم پر ہے جس کا عنوان “پرتشدد دہشت گردی پر کاری ضرب لگانے کی مہم” ہے۔ ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی ظاہری مہم میں درحقیقت ایسے مذہبی اور سیاسی نطریات کو نشانہ بنایا جاتا ہے جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے نظریے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ سی سی پی کا نظریہ تُرک اسلام کو “نظریاتی وائرس” کے طور پر پیش کرتا ہے۔
شنجیانگ متاثرین کے ڈیٹا بیس کے بانی جین بیونن کہتے ہیں کہ ویغوروں اور دیگر اقلیتوں کے افراد کو کسی سرکاری فیصلے یا مقدمے کے بغیر قید کی طویل سزائیں دی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ویغوروں اور قازقوں کو “جھگڑا کرنے اور گڑبڑ کا باعث بننے” یا “انتہا پسند” مواد سننے جیسے مبہم قوانین کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کے مطابق، غیرمنصفانہ سزاؤں میں مندرجہ ذیل سزائیں شامل ہیں:-
-
- وی چیٹ پر دوسروں کو قرآن پڑھانے پر دو سال قید۔
- بیرون ملک رشتہ داروں کو پیسے بھیجنے میں مدد کرنے پر پانچ سال قید۔
- اسلام میں حلال حرام کے بارے میں بتانے پر دس سال قید۔
ایچ آر ڈبلیو کا رپورٹ میں کہنا ہے، ” پولیس، [سرکاری وکیلوں]، اور عدالتوں پر حکام دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ جلدی جلدی اور سخت سزائیں دینے میں تعاون کریں جس کا نتیجہ سرسری مقدمات، مختصر عرصے میں مقدمات کی [ایک] بڑی تعداد کو نمٹانے اور چینی قوانین کے بنیادی طریقہ کار کے حقوق کی معطلی کی صورت میں نکلتا ہے۔”