ویغور ایک مسلمان نسلی گروہ ہے جو صدیوں سے جنوب مغربی چین میں رہتا چلا آ رہا ہے۔ ویغورں کی اکثریت شنجیانگ میں رہتی ہے جو رقبے کے اعتبار سے چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اس کا شمار ملک کے انتہائی دور دراز اور کم آبادی والے علاقوں میں ہوتا ہے۔
حالیہ برسوں میں چینی حکومت نے ویغور ثقافت اور مذہب کے خلاف سختی کی ہے اور ویغور باشندوں کو اپنی مقامی زبان بولنے، اپنی ثقافت قائم رکھنے اور مذہب پر عمل بشمول ماہِ رمضان کے دوران روزے رکھنے یا سور اور شراب سے پرہیز کرنے پر سزائیں دی ہیں۔

ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے ویغور باشندے ازبکوں اور قازقوں جیسے دیگر وسطی ایشیائی نسلی گروہوں سے مماثلت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان ازبک زبان سے قریب تر ہے اور قازق، کرغیز اور ترک زبان سے ملتی جلتی ہے۔
اسلام ویغور شناخت کا ایک اہم حصہ ہے۔ زیادہ تر ویغور سنی مسلمان ہیں۔
قریباً ایک کروڑ ویغور شنجیانگ میں رہتے ہیں جبکہ لاکھوں ویغور قازقستان، کرغیزستان اور ازبکستان سمیت دیگر ہمسایہ ممالک میں آباد ہیں۔
شنجیانگ معدنی وسائل سے مالامال ہے اور تاریخی طور پر اس کی معیشت زراعت اور تجارت سے وابستہ رہی ہے۔ کسی دور میں اس خطے کے شہر مشہور شاہراہ ریشم کے بڑے بڑے پڑاؤں کی حیثیت رکھتے تھے۔
جدید شنجیانگ کا چینی زبان میں مطلب ”نئی سرحد” ہے۔ یہ علاقہ 18ویں صدی میں چنگ سلطنت کی جانب سے اس خطے پر تسلط قائم کرنے کے بعد چینی حکومت کی عملداری میں آیا تھا۔ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اس خطے میں دو مختصر مدتی جمہوریاؤں نے آزادی کے دعوے کیے مگر 1949 میں کمیونسٹ پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد چین نے دوبارہ اس پر اپنا تسلط قائم کر لیا۔

چین کے مظالم
سالہا سال تک ویغور باشندوں کو کمیونسٹ حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر امتیازی سلوک کا سامنا رہا۔ اس حکومت نے ان کی اپنی ثقافت اور مذہب پر عمل کرنے کی اہلیت پر وسیع تر پابندیاں عائد کیں۔ چین میں سب سے بڑے نسلی گروہ، ہان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں چینیوں کو شنجیانگ میں منتقل ہونے کے لیے سہولتیں فراہم کی گئیں تاکہ ویغور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے اور خطے کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ویغور اور دیگر مسلمان اقلیتی گروہوں کے لوگوں کے خلاف ہر جگہ موجود سماجی و حکومتی امتیاز نے چینی حکومت کے خلاف مظاہروں اور وقتاً فوقتاً تشدد کو جنم دیا۔
صحافیوں نے بتایا ہے کہ حالیہ برسوں میں مقامی حکومت نے عوامی سطح پر تقریبات اور دستخطی مہمات منظم کیں جن میں نسلی اقلیتوں کے لیے چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد کرنا لازم قرار دیا گیا۔ مزید برآں چینی حکومت نے ویغور باشندوں کی پاسپورٹ کے حصول کی اہلیت سختی سے محدود کر رکھی ہے، ان کے لیے نقل و حرکت کی آزادی پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور ویغور باشندوں کے لیے بیرون ملک دیگر تورانی اور مسلمان اقوام سے کسی بھی طرح کا رابطہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔

حال ہی میں چینی حکومت کے بقول ”اسلامی انتہاپسندی” اور ”علیحدگی پسندی” کے خلاف جنگ کے نام پر اپریل 2017 سے اب تک کم از کم 800,000 لوگوں اور ممکنہ طور پر بیس لاکھ سے زیادہ ویغور اور دیگر مسلم اقلیتی گروہوں کے ارکان کو ”حراستی کیمپوں” میں زیرحراست میں رکھا گیا ہے۔ ”بے ترتیب” داڑھیاں، مسلم اکثریتی ممالک کا سفر، بلا اجازت قرآن پاک اپنے پاس رکھنا اور شراب پینے یا سور کھانے سے انکار ”ممکنہ انتہاپسندی” کی ایسی علامات ہیں جو اِن لوگوں کی گرفتاری کا باعث بن سکتی ہیں۔
چینی حکام ان کیمپوں کو ”تعلیم نو”کے ادارے یا ”پیشہ وارانہ” مکاتب کہتے ہیں مگر وہاں سے فرار ہونے والے لوگ بجلی کے جھٹکے دیے جانے، جبری اعترافات اور برین واشنگ یعنی ذہنی تطہیر کی داستانیں سناتے ہیں۔ انہیں چینی گیت گانے، قوانین ازبر کرنے اور کمیونسٹ پارٹی کے اقوال دہرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اطلاع دی ہے کہ ان مراکز میں سکیورٹی حکام نے قیدیوں کو بدسلوکی و تشدد کا نشانہ بنایا اور بعض کو ہلاک کر ڈالا۔

کیمپوں سے باہر رہنے والے ویغور باشندوں کو روئے زمین پر ایک ایسی پولیس ریاست کا سامنا ہے جس کا اثر ہر جگہ ہے۔ شہروں اور قصبوں میں پولیس اور فوج بڑے پیمانے پر موجود رہتی ہے۔ ہر کونے میں سکیورٹی کیمرے نصب ہیں اور ویغور باشندوں کے لیے اپنے فونوں میں ایسی ایپس رکھنا لازم ہے جن کے ذریعے حکومت ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہے۔ ویغور باشندوں کو حکومتی ڈیٹا بیس کے لیے ڈی این اے اور دیگر بائیومیٹرک معلومات دینے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔

ویغور باشندے حتٰی کہ اپنے گھروں میں بھی اکیلے نہیں ہوتے۔ ”شخصی نگرانی” کے ایک پروگرام کے تحت چینی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان بظاہر ”لوگوں سے گھلنے ملنے” اور ”انہیں درپیش مسائل جاننے” کے لیے ویغور خاندانوں کے گھروں میں آ جاتے ہیں مگر وہ ان کی ثقافتی سرگرمیوں، مذہبی رسومات اور کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ متخیلہ وفاداری کے بارے میں اطلاعات بھی اکٹھی کرتے ہیں۔
وزیر خارجہ مائیکل پومپیو نے اکتوبر میں ایک انٹرویو میں کہا، ”واضح طور پر یہ کیمپ لوگوں کی اپنی مذہبی آزادی سے کام لینے کی اہلیت کو محدود کرنے کی چینی کوشش ہیں۔” امریکہ ”انتہائی بنیادی انسانی حقوق کی اِن خلاف ورزیوں کی مخالفت” کرے گا۔’
اس مضمون کی تیاری میں وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ سے استفادہ کیا گیا ہے۔