وینیز ویلا میں مادورو حکومت نے ووٹ لینے کے لیے بھوک کا استعمال کیا

آمر حکومت کو ووٹ دیں یا رات کو بھوکے سوئیں۔ وینیز ویلا جو کبھی ایک خوشحال ملک ہوا کرتا تھا آج وہاں معاشی و سیاسی بحران سے متاثرہ لاکھوں لوگوں کو مذکورہ دو صورتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کی ہولناک صورتحال کا سامنا ہے۔

صدر نکولس مادورو کی حکومت کی بدعنوانی اور بدانتظامی نے خوراک کی قلت، انتہائی بلند سطح کی افراط زر اور صحت عامہ کے شعبوں میں زوال کو مزید تیز کر دیا ہے۔ نتیجتاً وینیز ویلا کے عوام کو سنگین نتائج کا سامنا ہے۔

مادورو کی آمر حکومت نے بہت سی مقامی سپرمارکیٹوں کو اس بات کا پابند بنا دیا ہے کہ وہ قیمتوں کو فروخت کنندہ کی قیمت خرید سے بھی کم سطح پر رکھیں۔ یہ صورت حال منڈی کی قدر سے مطابقت نہیں رکھتی اور اس طرح بیچنے والوں کے لیے منافع کمانا ممکن نہیں رہا۔ وینیز ویلا کی سپرمارکیٹیں کھانے پینے کی اشیا درآمد کرنے کے لیے کرنسی  بھی تبدیل نہیں کر سکتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سپرمارکیٹوں کی الماریاں خالی پڑی ہیں۔ دارالحکومت کراکس میں خریدار، خوراک اور ادویات کے لیے دن بھر قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔

تاہم 20 مئی کو ہونے والے قومی انتخابات سے پہلے حکومت نے ایک ہتھیار استعمال کیا۔ کراکس میں اینڈریز بیلو کیتھولک یونیورسٹی کے مطابق یہ ہتھیار چاول، پاستا اور ڈبہ بند خوراک پر مشتمل تھا۔ اشیا 15 فیصد آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔

اس خوراک کا پیکیج ان لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن کے پاس حکمران جماعت کا نیا کارڈ ہوتا ہے۔ اسے وطن کارڈ کہا جاتا ہے اور یہ کارڈ ووٹ دینے کی خاطر رجسٹریشن کرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان کارڈوں کے ذریعے حکومت یہ دیکھتی ہے کہ کون کون حکمران سوشلسٹ پارٹی کو ووٹ دیتا ہے اور اس طرح ووٹ دینے والوں کو انعام میں خوراک کے ڈبے دیے جاتے ہیں۔

انسانی بحران پیدا کرنے کی ذمہ دار مادورو حکومت متوقع طور پر ان کارڈوں کے ذریعے دی جانے والی خیراتی خوراک اور خسرے کی ویکسین کو آئندہ صدارتی انتخابات میں حمایت ‘خریدنے’ کے لیے استعمال کرے گی۔

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومت نے انتہائی اہم اور بنیادی ضروریات کو سیاست سے جوڑا ہے۔

سانتا ریٹا میں ایک خوانچہ فروش کیتھرینا نورییگا  نے وال سٹریٹ جرنل کو بتایا کہ اسے دسمبر 2017 میں ہونے والے میونسپل انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے قریباً ایک کلو چاول اور پھلیوں کی یا کم وبیش 10 دن کی اجرت کے برابر رقم کی پیشکش کی گئی تھی۔

نورییگا نے بتایا، “انہوں نے  ہمارے ووٹ خریدے۔” وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے حکومتی امیدوار کو ووٹ دیا کیونکہ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے انہیں ایسا ہی کرنا ہو گا۔ نورییگا کا کہنا ہے، “میں نے اپنے مشکل حالات کے باعث ایسا کیا۔”

اطلاعات کے مطابق حالیہ انتخابات کے دوران حکومتی حامیوں نے ووٹ نہ دینے والے لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے وطن کارڈ استعمال کیے اور لوگوں کو حکومت کے احسانات گنوائے۔ اس کے مضمرات واضح تھے کہ “ووٹ دیں یا بنیادی سہولتوں سے محروم رہیں۔” اطلاعات کے مطابق جن علاقوں نے حکومت کی حمایت نہیں کی وہاں خوراک کی سہولیات میں کمی کردی گئی۔

انسانوں کا پیدا کردہ بحران

Contents of a box of food sitting on a table (© Marco Bello/Reuters)
اناج کی قلت سے پیدا ہونے والے بھوک کے بحران کے دوران، وینیزویلا کی حکومت کھانے کے ڈبوں کی تقسیم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ (© Marco Bello/Reuters)

وینیزویلا میں بھوک، غذائی قلت اور بیماریوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ 2017 میں تین مقامی یونیورسٹیوں کی جانب سے حالات زندگی کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ملک کے 10 میں سے 9 شہری اپنی ضرورت کے حساب سے خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً 60 فیصد سے زیادہ آبادی بھوکی سوتی ہے۔

ڈاکٹر اور محقق میریانیلا ہیریرا نے ایل پائس  کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، “ہمارے پاس ایسی ماؤں کے بارے میں حیران کن اطلاعات ہیں جنہیں یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس بچے کو کس دن غذائیت والی خوراک دینی  ہے اور کسے نہیں دینی۔”

ملک بھر میں پھیلی بھوک کے باوجود مادورو نے انسانی بحران کی موجودگی کو تسلیم کرنے اور عالمی امداد قبول کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں کے دوران وینیزویلا کے لاکھوں لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔

عالمی ترقی کے امریکی ادارے کے منتظم مارک گرین نے خوراک اور ادویات کی تلاش میں سرحد عبور کر کے کولمبیا آنے والے وینیزویلا کے لوگوں کی مدد کے لیے 20 مارچ کو 25 لاکھ  ڈالر کے ابتدائی فوری عطیے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، “وینیزویلا کا یہ بحران انسانوں کا پیدا کردہ ہے۔ یہ بحران اب سرحدوں کے آرپار واقع علاقوں  میں بھی پھیل رہا ہے۔” ایک اندازے کے مطابق اس وقت وینیزویلا کے 6 لاکھ 50 ہزار شہری کولمبیا میں رہ رہے ہیں اور 2018 میں اندازاً مزید 17 لاکھ افراد کے ملک چھوڑنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

بہت سے لوگ کولمبیا اور برازیل کے سرحدی شہروں کا رخ کر رہے ہیں جس سے مقامی سماجی خدمات کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ یوایس ایڈ کی جانب سے دی جانے والی مذکورہ امداد سے قبل امریکہ گزشتہ دو برس میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین اور دوسرے عالمی اداروں کی علاقائی امدادی کارروائیوں کے لیے 36 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سے زیادہ رقم دے چکا ہے جس کا مقصد خطے کی وینیزویلا سمیت مصائب کی شکار آبادیوں کے لوگوں کی مدد کرنا ہے ۔

کولمبیا اور برازیل جیسے اپنے شراکت دار ممالک کے تعاون سے امریکہ، وینیزویلا کے عوام کی ضروریات کا اندازہ لگا رہا ہے اور مادورو حکومت سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ جمہوریت کی جانب واپس آئے اور انسانی امداد کے سلسلے میں عالمی معاونتی پروگرام کو وینیزویلا کے عوام کی مدد کی اجازت دے۔

یہ ایک مضموں ایک مختلف شکل میں 11 اپریل 2018 کو ایک بار پہلے شائع کیا جا چکا ہے۔