وینیز ویلا میں سونے کی کان کنی میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی بھرمار

سر پر بندھے ہوئے لیمپ کے ساتھ ایک آدمی سونے کی کان میں کام کر رہا ہے۔ (© Juan Barreto/AFP/Getty Images)
وینیز ویلا کے جنوب مشرقی حصے میں واقع ریاست بولیوار کے مقام ایل کیلاؤ میں ایک کان کن سونے کی کان میں اتر رہا ہے۔ (© Juan Barreto/AFP/Getty Images)

ہیومین رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کی ایک نئی رپورٹ میں وینیز ویلا میں سونے کی کانوں میں اُن خوف ناک حالات کی تصویر کشی کی گئی ہے جن کے تحت کان کنوں کو کانوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

تیل، ہیروں اور یورینیم جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک وینیز ویلا کا بارہ فیصد حصہ سونے اور معدنیات کے ذخائر سے بھرا پڑا ہے۔

وینیز ویلا کی جنوبی ریاست بولیوار میں مادورو کے حامی سویلین مسلح گروہ سونے کی پیداوار کو کنٹرول کرنے کے لیے جسمانی تشدد اور خوف کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے کان کنوں کو کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

سونا نکالنے کے کام کی نگرانی کرنے کے لیے مادورو حکومت کی طرف سے اِن گروہوں کو یہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ رپورٹ کے مطابق عینی شاہدین نے ایک اعلی حکومتی اہل کار کو سونے کی کانوں میں گشت کرتے ہوئے دیکھا۔

ایچ آر ڈبلیو نے وینیزویلا کے سونے کے کان کنوں اور سونے کی کان کنی والے شہروں میں رہنے والے لوگوں سے مصدقہ شہادتیں اکٹھی کرنے میں دو برس لگائے۔ اس رپورٹ کے مطابق “بولیوار میں بہت سی کانیں وینیز ویلا کے منظم گروہوں یا کولمبیا کے مسلح گروہوں کی مضبوط گرفت میں ہیں۔” اِن گروہوں میں کولمبیا کی مسلح انقلابی فورسز کے نام سے جانی جانے والی ‘فارک’، اور نیشنل لبریشن آرمی کے طور پر مشہور ای ایل این جیسی گوریلا تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

یہ مسلح گروہ لوگوں کے دلوں میں خوف بٹھانے اور کان کن بستیوں میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے بہانے من مانے “قوانین” نافذ کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے لئے انٹرویو کیے گئے عینی شاہدین کے مطابق، مسلح گروہوں کے لوگ کان کنوں اور بے گناہ شہریوں پر چوری کے الزامات لگا کر سرعام ان کی انگلیاں کاٹ دیتے ہیں اور اُن کے ناخن کھینچ لیتے ہیں۔ بلکہ بعض حالالت میں وہ جان سے مار ڈالتے ہیں۔

متاثرہ افراد کا تحفظ کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی عدالتی نظام نافذ نہیں ہے۔

دو آدمی کیچڑ والی زمین پر کدالوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ (© Michael Robinson Chavez/The Washington Post/Getty Images)
وینیز ویلا میں سونے کی نئی کانین کھودنے کے لیے کان کن کدالیں اور پانی کے دباؤ والے پائپ استعمال کرتے ہیں۔ (© Michael Robinson Chavez/The Washington Post/Getty Images)

ملک کے جنوبی حصے میں واقع سونے کی کانیں قدیم باشندوں کی آبادیوں کے قرب و جوار میں کام کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان علاقوں کے قدیم باشندوں کو اکثر ان کی مرضی کے خلاف بارودی سرنگوں میں کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

کانوں میں کام کرنے کے حالات خطرناک ہیں۔ سونے کی دھات کو صاف کرنے کے لیے زہریلی مقدار میں پارہ استعمال کیا جاتا ہے اور کام کی جگہ زخمی ہونے سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات یا تو بہت کم ہیں یا سرے سے موجود ہی نہیں۔ رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ایک 16 سالہ لڑکے کی اس وقت کس طرح گرتے ہوئے لکڑی کے ایک تنے سے ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی جب وہ حفاظتی لباس کے بغیر اونچے دباؤ والا پانی کا ایک پائپ استعمال کر رہا تھا۔

مزید برآں، محکمہ خارجہ کے ایک اہل کار نے وینیز ویلا میں غیرقانونی کان کنی کے بارے میں کانگریس میں اپنے حلفیہ بیان (پی ڈی ایف) میں بتایا کہ کان کن برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو “کانیں چلانے والے گروہ تشدد اور خوف کے ذریعے جبری مشقت یا جنسی کاروبار پر مجبور کرتے ہیں۔ بعض علاقوں سے اس طرح کی رپورٹیں موصول ہوئی ہیں جن کے مطابق جنسی کاروبار کے لیے لائے جانے والوں کی اوسط عمریں 13 اور 14 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔”

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ کہتی ہے کہ کان کنوں کو اپنا 80 فیصد سونا گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح قصبوں کے مکینوں کو اپنے کاروبار چلانے کے لیے مسلح گروہوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔

ایچ آر ڈبلیو کی رپورٹ میں عبوری صدر اور قومی اسمبلی کے لیڈر، خوان گوائیڈو کے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں منعقد ہونے والے ‘ورلڈ اکنامک فورم’ میں بیان کیے گئے خدشات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ انہوں نے وینیز ویلا کے اتحادیوں سے درخواست کی کہ جب تک انسانی حقوق کی پامالیاں ختم نہیں ہو جاتیں تب تک وینیز ویلا کے سونے کی خریداری روک دیں۔

گوائیڈو نے کہا، “پہلا کام سونے کی غیرقانونی تجارت کو بند کرنا ہے۔ یہ خونی سونا ہے۔”