وینیز ویلا میں انسانی اور معاشی بحران پر کام کرنے والے صحافیوں کو گرفتاریوں اور حراستوں کا سامنا ہے کیونکہ سابقہ صدر نکولس مادورو نے پریس کی آزادی کے خلاف کاروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
صحافیوں کو تحفظ دینے کی کمیٹی کے مطابق اس سال ابھی تک 39 صحافیوں کو گرفتار یا حراست میں لیا جا چکا ہے. گرفتاریوں کی یہ تعداد سال 2018 میں کی جانے والی مجموعی تعداد 22 سے زیادہ ہوگئی ہے۔ تاہم گرفتاریوں میں یہ اضافہ تو اُن خطرات کی محض ایک مثال ہے جن کا وینیز ویلا کے ابتر ہوتے ہوئے حالات میں کام کرنے والے صحافیوں کو سامنا ہے۔
دنیا بھر میں پریس کی آزادی کی حمایت کرنے والے رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز (سرحدوں سے ماورا رپورٹر) نے وینیز ویلا میں صحافیوں کی لیے ماحول کو “انتہائی کشیدہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں پر صحافیوں کو ہراساں کیے جانے، “من مانی گرفتاریوں اور تشدد” کا سامنا ہے۔
کراکس میں قائم پریس اور سوسائٹی کے انسٹی ٹیوٹ کے مطابق مادورو “صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے اور اُن کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کر رہا ہے” اور ” وینیز ویلا میں رپورٹنگ کرنا ایک خطرناک کام بن چکا ہے۔”
آج پریس کی آزادی کے 26ویں عالمی دن پر وینیز ویلا میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو روزافزوں خطرات کا سامنا ہے۔ 2013ء میں مادورو کے برسراقتدار آنے کے بعد اب تک 115 خبر رساں ادارے بند ہو چکے ہیں۔
مندرجہ ذیل صحافیوں کو سابق صدر مادورو کی حکومتی کی کارستانیوں پر روشنی ڈالنے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا اور اُنہیں ہراساں کیا گیا۔ اگرچہ کچھ کو ملک بدر کر دیا گیا یا انتقامی کاروائیوں کے خوف سے وہ بھاگ گئے مگر بہت سے صحافی خطرات کے باوجود اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لوئس کارلوس ڈیاز کو 11 مارچ کو اُس وقت وینیز ویلا کی انٹیلی جنس کے اہل کاروں نے گرفتار کیا اور اُن پر تشدد کیا جب وہ ریڈیو سٹیشن پراپنے کام کے بعد گھر واپس آ رہے تھے۔ اِن اہل کاروں نے ڈیاز کے گھر کی تلاشی لی اور فون، نقد رقم، اور کمپیوٹر ضبط کر لیے۔ ڈیاز اس سب کچھ کو بے بسی کے عالم میں دیکھتے رہے۔ انہیں 30 گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا اور حکومتی اہل کاروں نے بغیر کسی ثبوت کے اُن پر عوام کو اکسانے کا الزام عائد کیا۔ مقدمہ چلائے جانے کے منتظر ڈیاز پر وینیز ویلا چھوڑنے اور اپنے مقدمے پر بات کرنے کی پابندی ہے۔

خورخے راموس ہسپانوی زبان کے ‘یونی وژن’ نامی امریکی ٹیلی وژن نیٹ ورک کے اینکر ہیں۔ اُنہیں مادورو کے ایک متنازعہ انٹرویو کے بعد 26 فروری کو وینیز ویلا سے نکال دیا گیا۔ راموس کہتے ہیں کہ انہوں نے سابق صدر سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ملک کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے مصائب کے بارے میں سوالات پوچھے۔ مادورو نے اس وقت انٹرویو ختم کر دیا جب راموس نے اسے کھانے کی چیزوں کی تلاش میں کچرے میں ہاتھ مارتے ہوئے بچوں کی ایک وڈیو دکھائی۔
راموس نے 27 فروری کو ایک اداریے میں کہا، “ہماری گفتگو کے عین درمیان میں وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اُس کے سکیورٹی گارڈوں نے ہمارے ٹیلی وژن کیمرے، میموری کارڈ اور موبائل فون چھین لیے۔ جی ہاں، مسڑ مادورو نے انٹرویو چرا لیا تا کہ اسے کوئی دیکھ نہ پائے۔”

ایلیانجلیکا گونزالیز یونی وژن اور کاراکول ریڈیو، کولمبیا کی رپورٹر ہیں۔ وہ جب مارچ 2017 میں کراکس میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کی رپورٹنگ کر رہی تھیں تو وینیز ویلا کے نیشنل گارڈ کے افسروں نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس واقعے کی وڈیو میں درجن بھر باوردی افسروں کو گونزالیز کو گھیرے ہوئے اور زمین پر گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ گونزا لیز نے بتایا، “میں نے انہیں وضاحت سے بتایا کہ میں ایک باضابطہ صحافی ہوں اور میں برائے راست رپورٹنگ کر رہی ہوں۔ اس کے باوجود ایک افسر آیا اور میرے ہاتھ سے میرا فون چھین کر لے گیا۔ ایک خاتون افسر نے مجھے میرے بالوں سے پکڑا، زمین پر گرایا، اور مجھے مسلسل ٹھڈے مارنے شروع کر دیئے۔”

البرٹو راویل وینیز ویلا کے ایک صحافی ہیں۔ انہوں نے وینیز ویلا میں گلوبو وژن، ٹیلی وین، انگوستورا ریڈیو، ریڈیو کانیما اور لا پلاتیلا جیسے میڈیا کے اداروں کی بنیاد رکھی اور اِن کی سربراہی کی۔ انہیں 2011ء میں وینیز ویلا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کی بنیادی وجہ گلوبو وژن کی حکومت کی رپورٹنگ اور غیرقانونی قانون ساز اسمبلی کے موجودہ نائب صدر دائیوس دادو کابیلو کی جانب سے ملنے والی دھمکیاں تھیں۔
کابیلو نے 2015ء میں لا پلاتیلا اور دیگر پر ہتک عزت کا دعوٰی کیا۔ ستمبر 2018 میں اس نے اعلان کیا کہ اس نے مقدمہ جیت لیا ہے اور تینوں خبر رساں اداروں سے ہرجانے اور اپنے الزامات عوامی سطح پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ لا پلاتیلا نے نہ تو جرمانہ ادا کیا اور نہ ہی عوامی سطح پر اپنے الزامات واپس لیے۔ راویل نے کابیلا پر وینیز ویلا میں آزاد میڈیا کو ختم کرنے کے لیے اپنے سرکاری اختیارات کو استعمال کرنے کا سرعام الزام لگایا۔
ابھی تک جلا وطنی میں ہونے کے باجود راویل کو اپریل 2019 میں وینیز ویلا کی جمہوری طور پر منتخب شدہ قومی اسمبلی اور عبوری صدر خوان گوائیڈو کی جانب سے نئے تشکیل دیئے جانے والے ‘سنٹر فار کمیونیکیشن’ کا ڈائریکٹر نامزد کیا گیا ہے۔

جوزف پولیسوک Armando.info (آرماندو۔انفو) کے ایڈیٹر اِن چیف اور شریک بانی ہیں۔ تحقیقاتی صحافت کے لیے وقف یہ نیوز ویب سائٹ 2018ء کا ‘بین الاقوامی صحافت کا نائٹ ایوارڈ’ حاصل کر چکی ہے۔ وہ رپورٹروں کی ایک ایسی ٹیم کے سربراہ ہیں جس کی تحقیقات کی وجہ سے وینیز ویلا میں کی جانے والی مالی غلط کاریاں اور بدعنوانیاں سامنے آئیں ہیں۔ مزید برآں اس ٹیم نے بین الاقوامی تحقیقات بھی کی ہیں۔
گزشتہ برسوں میں وینیز ویلا کی سکیورٹی فورسز نے پولیسوک کو حراست میں لیا، دھکمیاں دیں، ہراساں کیا۔ حالیہ ترین دنوں میں کسی گمنام ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اُن پر ذاتی حملے کیے گئے ہیں۔ 2017ء میں آرماندو.انفو کی جانب سے خوراک کی درآمد میں بے قاعدگیوں کی ایک رپورٹ شائع کرنے کے بعد پولیسوک اور ان کے تین رفقائے کار کو ملک سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ اس رپورٹ میں ایک ایسے تاجر کو ملوث پایا گیا تھا جس کے مادورو کی سابقہ حکومت کے ساتھ روابط تھے۔ پولیسوک تا حال جلاوطنی میں ہیں

میگل اوٹیورو ‘ ایل ناسیونال‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کاغذ اور سیاہی پر پابندیوں نے ملک کے 75 سال تک چھپنے والے آزاد اخبار کو اپنی اشاعت بند کرنے پر مجبور کر دیا۔ اوٹیرو اور اُن کے رپورٹروں کو ہراساں کیا گیا۔ وہ خود کئی سال تک ملک سے باہر رہتے رہے۔ کاغذ اور سیاہی کی قلت کو وہ ایک غنیمت جانتے ہیں اور اس کے دوران اخبار اپنی ڈیجیٹل قارئین میں اضافہ کر سکتا ہے۔
اوٹیرو نے بتایا کہ ایل ناسیونال یہ شہ سرخی لگائے گا: “وینیز ویلا کی جمہوریت کی طرف واپسی۔” اُن کا کہنا ہے، “وہ ہمیں غائب نہیں کر سکتے۔’
یہ مضمون فری لانس مصنفہ ڈیوڈ رینالڈز نے تحریر کیا۔