ہراساں کرو۔ گرفتار کرو۔ یہی وہ کچھ ہے جو مادورو حکومت ملک کے بچ جانے والے واحد جمہوری ادارے یعنی وینیز ویلا کی قومی اسمبلی میں اپنے مخالفین کے ساتھ کر رہی ہے۔
13 جنوری کو حکومت کی “بولیویرین انٹیلی جنس سروس [ایس ای بی آئی این یا سیبن] نے ملک کے عبوری صدر خوان گوائیڈو کو گرفتار کنے کے بعد حراست میں رکھا۔ جب براعظمہائے امریکہ کی ریاستوں کی تنظیم سمیت امریکہ اور بین الاقوامی برادری نے اس واقعہ کی مذمت کی تو گوائیڈو کو رہا کر دیا گیا۔
اس کے علاوہ مادورو نے جن شخصیات کو ہراساں یا گرفتار کیا ہے، کراکس کے اینالیٹیکا کے مطابق اِن میں اسمبلی کے لگ بھگ 67 اراکین شامل ہیں۔ یہ تعداد قانونی طور پر منتخب شدہ حزب اختلاف کے تقریباً دو تہائی اراکین کے برابر بنتی ہے جنہیں ہراساں کیا گیا، جیل میں ڈالا گیا یا اُن کے ساتھ اس سے بھی بڑھکر بدتر سلوک کیا گیا۔

بعض اوقات مادورو حکومت ہراساں کرنے، جیلوں میں ڈالنے سے بھی کہیں آگے نکل کر تشدد پر اتر آتی ہے۔ اس کی مثال کراکس کے مقبول عام رکن اسمبلی، گِلبرکارو ہیں۔ مادورو کی انٹیلی جنس سروس، سیبن نے بار بار کارو کو گرفتار کیا اور اِن پر تشدد کیا۔ کھانے پینے کے لیے اتنی خوراک دی جس سے وہ بمشکل زندہ رہ سکیں۔ کارو کو ایک بار پھر اپریل میں گرفتار کیا گیا جس کے بعد انہیں نہیں دیکھا گیا۔ اُن کے وکلا انہیں “لاپتہ” قرار دیتے ہیں۔
وینیز ویلا کے عوام کے منتخب کردہ دیگر قانون سازوں کو غیرممالک کے سفارت خانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رکن اسمبلی فریڈی گویرا نے چلی، رکن اسمبلی امیریکو دو گرازیا نے اٹلی اور رکن اسمبلی فرانکو مینوئل کاسیلا نے میکسیکو کے سفارت خانے میں پناہ لی ہوئی ہے۔ رکن اسمبلی رچرڈ بلانکو آج کل ارجنٹینا کے سفیر کے “مہمان” ہیں۔ اِن اراکین اسمبلی کے ایک درجن رفقائے کار بھاگ کر ہمسایہ ممالک میں چلے گئے ہیں۔

مئی میں مادورو کی حکومت نے اول نائب صدر ایڈگر زمبارینو کو گرفتار کیا اور وہ ابھی تک زیرحراست ہیں۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے زمبارینو کی غیر قانونی قید کو “[وینیز ویلا] کی جمہوری طور پر منتخب شدہ مقننہ کی آزادی پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔” ایک انٹرویو میں پومپیو نے کہا، “ہمارا کام اُن سب کی حمایت کرنا ہے جو خوان گوائیڈو کی حمایت کر رہے ہیں۔ .
یہ مضمون فری لانس مصنف فلپ ترزیان نے تحریر کیا۔