امریکہ نے 25 جولائی کو نکولس مادورو کے تین سوتیلے بیٹوں پر ایک ایسی سکیم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندیاں عائد کی ہیں جس کے تحت انہوں نے کھانے پینے کی چیزوں کی درآمد کے ایک ٹھیکے سے کروڑوں ڈالر چوری کیے۔ انہوں نے یہ جرم ایک ایسے موقع پر کیا ہے جب وینیز ویلا کے طول و عرض میں بھوک پھیلی ہوئی ہے۔
وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا، ” وینیز ویلا کے بہت سے شہریوں کی زندہ رہنے کے لیے اس پروگرام پر انحصاری کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، مادورو اور اس کے کاسہ لیسوں نے اسے سیاسی ہتھیار اور اپنے آپ کو دولت مند بنانے کے ایک طریقہ کار میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔”
اس سکیم کو چلانے والا کولمبیا کا ایک تاجر الیکس ساب ہے۔ اس پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ساب نے مادورو کی سوشلسٹ حکومت سے بڑی تعداد میں ٹھیکے حاصل کیے۔
امریکہ کے محکمہ خزانہ کے مطابق ساب نے رشوت اور کمشن دے کر بغیر بولی کے، اور مہنگی قیمتوں پر لیے گئے ٹھیکوں سے کمائے جانے والے منافعوں کو چھپانے کے لیے متحدہ عرب امارات، ترکی، ہانگ کانگ، پانامہ، کولمبیا اور میکسیکو سمیت دنیا بھر میں پھیلی جعلی کمپنیوں کے نیٹ ورک کو استعمال کیا۔
امریکہ کے وزیر خزانہ سٹیون منوچن نے کہا، “ساب نے مادورو کے قریبی حلقوں کے ساتھ ساز باز کر کے بدعنوانی کا ایک ایسا جال پھیلایا جس کو انہوں نے وینیز ویلا کی فاقوں کی شکار قوم کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے خوراک کو سماجی کنٹرول کی ایک شکل کی صورت میں، سیاسی حمایتیوں کو انعام کے طور پر اور مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا۔ اس سے بھی بڑھکر، انہوں نے جعلی سکیموں کی ایک بڑی تعداد کے ذریعے کروڑوں ڈالر اپنی جیبوں میں ڈالے۔”
محکمہ خزانہ کا کہنا ہے کہ اِن میں سے ساب کے بعض ٹھیکے مادورو کی بیوی سیلیا فلوریس کی پہلی شادی سے ہونے والے بچوں، یوسوال، یوسر اور والٹر فلوریس کو رشوت دے کر حاصل کیے گئے۔
مجموعی طور پر 10 افراد پر امریکہ میں کاروبار کرنے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اِن میں ساب کا کاروباری ساجھے دار اور کولمبیائی ہم وطن، الوارو پولیڈو اور اس کے خاندان کے بہت سے افراد کے ساتھ ساتھ مادورو کے سوتیلے بیٹے بھی شامل ہیں۔
چونکہ ونیز ویلا میں بھوک پھیل چکی ہے اس لیے مادورو نے خوراک کی درآمد اور تقسیم پر زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ 2016ء میں اس نے ہر ماہ دیئے جانے والے روزمرہ کے استعمال کے اناج کے اعانتی قیمتوں والے ڈبے بیچنے شروع کر دیے۔ خوراک کے یہ ڈبے ایک ایسے ملک کے کھانے پینے کی چیزوں کی قلت کی وجہ سے مصائب کے شکار کروڑوں شہریوں کے لیے زندہ رہنے کا ایک انتہائی نازک ذریعہ بن چکے ہیں جہاں گزشتہ برس انتہائی اونچی سطح کی افراط زر کی شرح 130,000% سالانہ تک پہنچ گئی۔
مادورو کے ناقدین، وینیز ویلا میں چہار سو پھیلی بدعنوانی کے علاوہ، خوراک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے، اور خوراک کے ڈبوں کو سرکاری ملازموں اور حمایتیوں میں تقسیم کرنے کے الزامات بھی لگاتے ہیں۔ اِن الزامات کی وجہ سے لاطینی امریکہ کے ممالک کی حکومتیں، کینیڈا اور فرانس نے مادورو پر انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں، جرائم کی بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
محکمہ خزانہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری مارشل بلنگسی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، “بات محض بدعنوانی سے بڑھکر کہیں آگے تک جا چکی ہے۔ وینیز ویلا میں بچ رہنے والے سماجی تحفظ کے واحد پروگرام کی حقیقی معنوں میں لوٹ مار کی جا رہی ہے۔”
اس مضمون کی تیاری میں ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔