ویکسین نے پولیو اور چیچک سمیت بہت سی مہلک بیماریوں پر قابو پانے بلکہ ان کا خاتمہ کرنے میں مدد دی ہے۔ اب کووِڈ۔19 بیماری کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تلاش جاری ہے ۔ اس وبا نے دنیا بھر میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔
کووِڈ۔19 کی ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں مصروف سائنس دان دنیا بھر میں وبائی بیماریوں سے ہونے والے نقصان کو محدود رکھنے کے لیے امریکہ کی دیرینہ کوششوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ویکسینیں بہت سی مہلک بیماریوں کے پھیلاؤ کو محدود کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں اور ان کی وجہ سے چیچک کا خاتمہ ممکن ہوا۔ امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور دیگر ممالک میں اختراع سازوں نے کووڈ-19 کے خلاف ایسی محفوظ اور موثر ویکسینیں دریافت کی ہیں جو اس وبا کے خلاف جنگ میں مدد گار ثابت ہو رہی ہیں۔
امریکی دواساز کمپی ماڈرنا اور جرمنی میں قائم بائیو این ٹیک نے امریکہ میں قائم فائزر کی شراکت سے میسینجر آر این اے ویکسینیں کہلانے والی پہلی ویکسینیں تیار کیں جو کووڈ-19 کی روک تھام میں انتہائی موثر ثابت ہوئی ہیں۔ امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانس نے ایک ہی ٹیکے سے لگائی جانے والی ویکسین تیار کی ہے۔ یہ ویکسین بھی دنیا میں کووڈ-19 کو روکنے میں مدد کر رہی ہے۔
امریکہ کم اور کم متوسط آمدنی والے ممالک اور معیشتوں کو ویکسین کی 610 ملین خوراکیں بطور عطیہ دے رہا ہے۔ زیادہ تر عطیات، منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کے لیے وقف بین الاقوامی شراکت داری کے کوویکس پروگرام کے ذریعے دیئے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے کوویکس پروگرام میں مدد کرنے والے گاوی نامی “ویکسین الائنس” کے لیے بھی چار ارب ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔
صدر بائیڈن کا امریکہ کو دنیا کے “ویکسینوں کا اسلحہ خانہ” قرار دینا، حیاتیاتی طبی تحقیق اور اختراع کاروں کی دہائیوں کی طویل کوششوں میں اُن امریکی سرمایہ کاریوں کو آگے لے کر چلنا ہے جن کا مقصد پوری دنیا میں متعدی بیماریوں پر قابو پانا اور ان کو ختم کرنا ہے۔
جوناس سلک ایک امریکی ڈاکٹر، طبی محقق اور وبائی امراض کے ماہر تھے۔ انہوں نے 1955 میں پولیو کے علاج کے لیے ایک ویکسین تیار کی۔ اس سے قبل ہر سال پولیو سے لاکھوں بچے مفلوج ہو جایا کرتے تھے۔ امریکہ کے امراض پر قابو پانے اور ان کی روک تھام کے مراکز [سی ڈی سی] کے مطابق وسیع پیمانے پر حفاظتی ٹیکے لگانے کے باعت 1988 اور 2013 کے درمیان پولیو کے مریضوں کی تعداد میں 99 فیصد کمی واقع ہوئی۔ پولیو کے خلاف مسلسل حفاظتی ٹیکے لگانے کی وجہ سے پولیو مکمل طور پر ختم ہونے والی اگلے بیماری بننے جا رہا ہے۔
نوبیل انعام جیتنے والے امریکی، جان اینڈرس حیاتیاتی طب کے شعبے کے سائنس دان تھے۔ انہوں نے 1963 میں خسرے کے علاج کے لیے ویکسین تیار کی۔ اب خسرے کے مریضوں کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ سی ڈی سی کا کہنا ہے کہ 2018 میں خسرے سے پوری دنیا میں 142,000 ہلاکتیں ہوئیں۔
امریکی محققین دیگر امراض کے لیے بھی ویکسینیں تیار کرنے میں مصروف ہیں۔
مڈل ایسٹ ریسپیریٹری سنڈرم (مرس)

مرس کی بیماری 2012 میں جزیرہ نما عرب میں انسانوں میں پہلی بار نمودار ہوئی جس کے بعد 2014 میں یہ بیماری امریکہ میں پھیل گئی۔ سائنس دانوں نے معلوم کر لیا ہے کہ (مرس-کوو) نامی وائرس کس طرح مرس کا سبب بنتا ہے اور وہ اس بیماری کی موثر ممکنہ ویکسینیں تیار کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
الرجی اور متعدی امراض کے قومی ادارے کا کہنا ہے کہ کووڈ-19 کی ممکنہ ویکسین میں سے ایک ویکسین ہسپتالوں میں تیزی سے علاج کے آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے کیونکہ اسے مناسب ردوبدل کے بعد مرس کے علاج کے لیے ویکسین کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
ایبولا

ایبولا وائرس کی بیماری بخار، اندرون جسم خون کے بہنے اور موت کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ وائرس جسمانی سیالوں کی منتقلی کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ بیماری افریقہ میں پھوٹتی رہی ہے۔ اس کا حالیہ ترین پھیلاؤ 2021 میں جمہوریہ کانگو اور گنی میں ہوا ہے۔
امریکی اور یورپی ضابطہ کاروں نے حالیہ برسوں میں جس ویکسین کی منظوری دی ہے وہ اس مرض کی “زائر کی قسم” کے علاج کے لیے امریکی دواساز کمپنی مرک نے تیار کی ہے۔ ایبولا پر قابو پانے کی کاوشوں کے لیے امریکہ بدستور سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک چلا آ رہا ہے۔ امریکہ اُن ممالک کی وبائی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی سطح پر تیار رہنے اور ان سے نمٹنے کے کاموں میں بھی مدد کرتا ہے جہاں یہ وبائی بیماریاں اکثر پھوٹتی رہتی ہیں۔
زیکا

بنیادی طور پر زیکا وائرس مچھروں سے پھیلتا ہے اور اس کے نتیجے میں 2015 اور 2016 میں مغربی نصف کرے میں ہزاروں بچے پیدائشی طور پر جسمانی نقائص کے ساتھ پیدا ہوئے۔
امریکی محکمہ دفاع کے والٹر ریڈ آرمی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے زیکا کی ویکسین کی تیاری میں تیزی سے پیش رفت کی اور 2016 کے آخر میں اس کے آزمائشی تجربات شروع کیے۔
این آئی اے آئی ڈی کے سائنس دانوں نے ایک تجرباتی ویکسسین تیار کی اور مارچ 2017 میں اس کے آزمائشی تجربات شروع کیے۔
ملیریا

مچھروں سے پیدا ہونے والی ایک اور بیماری ملیریا ہے۔ ہر سال دنیا کی نصف آبادی یعنی 3.4 ارب افراد کو اس بیماری کے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صدر جارج ڈبلیو بش کے 2005 میں امریکی صدر کے ملیریا کے پروگرام کے آغاز سے قبل، اس سے افریقہ میں ہر سال سات لاکھ افراد ہلاک ہو جایا کرتے تھے۔ 2017 تک، علاج معالجے کی سہولتیں عام کرنے اور مچھردانیوں کی فراہمی جیسے روک تھام کے اقدامات اٹھانے کی وجہ سے ملیریا سے ہونے والی اموات نصف سے زیادہ کم ہوکر لگ بھگ تین لاکھ سالانہ سے بھی کم پر آ گئیں۔
امریکی محققین 5 سے 17 ماہ کے بچوں میں ملیریا کی روک تھام میں 77 فیصد کارگر ثابت ہونے والی ویکسین تیار کرنے کی ایک بین الاقوامی کوشش کا حصہ بھی ہیں۔
تپ دق

ٹی بی کی بیماری کا سبب پھیپھڑوں پر حملہ کرنے والا بیکٹیریا ہوتا ہے۔ جب ٹی بی کا کوئی مریض چھینکتا یا کھانستا ہے تو ہوا میں پھیلنے والے اس بیماری کے جراثیم دوسروں تک منتقل ہو جاتے ہیں۔ اس بیماری سے ہر سال 1.5 ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ٹی بی کا مرض ہلاکتوں کے حوالے سے، دنیا کی سب سے زیادہ اموات کا سبب بننے والی متعدی بیماری یعنی ایڈز کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔
اس وقت دستیاب ویکسین کی افادیت محدود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این آئی اے آئی ڈی ویکسینوں اور علاجوں پر تحقیق کے لیے مالی وسائل فراہم کر رہی ہے۔ کئی ایک ممکنہ ویکسینوں کے جانوروں پر کیے جانے والے تجربات کے کامیاب نتائج سامنے آئے ہیں اور اس وقت یہ ویکسینیں ہسپتالوں میں آزمائشی تجربات کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
ابتدائی طور پر یہ مضمون 23 اپریل 2020 کو شائع کیا گیا تھا۔