
ایسے میں جب دنیا بھر کے لوگ امریکہ میں کووڈ-19 کی ایک یا کئی ویکسینوں کی منظوری کا انتظار کر رہے ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہوگیا ہے کہ ویکسینیں کام کیسے کرتی ہیں۔
نئے کورونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی کئی ایک ویکسینوں کے جانوروں پر آزمائے جانے کے بعد حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے ہیں۔ اب یہ جاننے کے لیے شفا خانوں میں اِن ویکسینوں کے آزمائشی تجربات کیے جا رہے ہیں کہ انسانوں کے لیے کیا یہی ویکسینیں محفوظ اور موثر ہیں۔
ویکسینیں 101
کووڈ-19 کی کئی ایک ویکسینوں کے آزمائشی تجربات کرنے والے والٹر ریڈ تحقیقی انسٹی ٹیوٹ میں قائم، امریکی فوج کا ایچ آئی وی پروگرام اور ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں کی شاخ، ہنری ایم جیکسن فاؤنڈیشن کا حصہ ہے اور ساندھیا وسان اس شاخ کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، “ویکسینیں آپ کے جسم کے مدافعتی نظام کی تربیت کے ذریعے کام کرتی ہیں۔”
اُن کا کہنا ہے، “یہ آپ کے مدافعتی نظام کا سامنا بیماریاں پیدا کرنے والے جرثوموں کی طرح دکھائی دینے والی کسی ایسی چیز سے کرواتی ہیں جسے آپ روکنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح آپ کا جسم مدافعانہ ردعمل کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور اِس مخصوص جرثومے کو نشانہ بناتا ہے۔ لہذا بعد میں جب آپ کا سامنا حقیقی جرثوموں سے ہوتا ہے تو آپ کے جسم کا وہ یاد داشتی ردعمل حرکت میں آجاتا ہے جسے پہلے سے ہی اُن جرثوموں سے لڑنے کے لیے تیار کیا چکا ہوتا ہے۔”
سائنس دان مختلف بیماریوں کے لیے مختلف اقسام کی ویکسینیں تیار کرتے ہیں۔ خسرے، چیچک اور زرد بخار جیسی بعض بیماریوں کے لیے وہ جرثوموں کی زندہ مگر کمزور (یا ہلکی سی) شکل استعمال کرتے ہیں۔ یہ جرثومے وائرس، بیکٹیریا یا دیگر متعدی شکلوں میں ہو سکتے ہیں۔ انفلوئنزا کی روک تھام جیسی دیگر ویکسینیں مردہ (غیرمتحرک) جرثومے سے تیار کی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند عشروں کے دوران، پولیو ویکسینوں کی تیاری کا طریقہ کار کمزور جرثوموں سے منتقل ہوکر غیرمتحرک جرثوموں پر چلا گیا ہے۔
مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کے لیے دیگر دو عام طریقوں میں یا تو کسی جرثومے کو یا جرثومے کی پیدا کردہ زہر کو استعمال کیا جاتا ہے۔
کورونا وائرس کی ویکسینیں
نئے کورونا وائرس کے سلسلے میں سائنس دان نئے طریقوں سے کام کر رہے ہیں۔ وسان کہتی ہیں، “ایسی حیران کن ٹکنالوجیاں تیار کر لی گئی ہیں جن سے ہم مختلف طریقوں سے ویکسینیں تیار کر سکتے ہیں۔ یہ طریقے زیادہ محفوظ، آسان اور وسیع پیمانے پر (ویکسینیں) تیار کرنے میں کم قیمت ثابت ہو سکتے ہیں۔” ذیل میں ان کی تین مثالیں دی جا رہی ہیں:
- شفا خانوں میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے میں داخل ہونے والی کورونا وائرس کی ویکسینیوں میں سے ایک ویکسین میں “میسنجر آر این اے” نامی جینیاتی مادے کو خلیوں کو انسانی جسم میں کورونا وائرس کی پروٹین پیدا کرنے کی ہدایات دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ پروٹین اصلی وائرس کے خلاف مدافعتی خلیے پیدا کر سکتی ہے۔
- شفا خانوں میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے کے دوسرے طریقے میں کورونا وائرس سے ایک جین اُس وائرس میں داخل کی جاتی ہے جو پھیلتی نہیں ہے۔ اس سے کوروناوائرس کی وہ پروٹین پیدا ہوتی ہے جو مدافعتی ردعمل پیدا کر سکتی ہے۔
- تیسرے طریقے میں کورونا وائرس کی پروٹین تجربہ گاہ میں تیار کی جاتی ہے اور اُسے ویکسین میں ملا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ ویکسین مدافعتی ردعمل پیدا کرنے کے لیے لوگوں کو لگائی جاتی ہے۔
شکاگو کی ایلانائے یونیورسٹی میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے کی قیادت کرنے والے، ڈاکٹر رچرڈ ایم نوواک کہتے ہیں، “ایک ہی چیز پر سارے داؤ نہ لگانا ایک اچھی سوچ ہے۔ [اس کی بجائے] بہت سی مختلف چیزوں کو آزمایا جانا چاہیے۔”
وسان کہتی ہیں کہ عوامی اعتماد کے لیے ممکنہ ویکسینوں کی محفوظگی اور اکسیریت کے آزمائشی تجربات کرنے انتہائی اہم ہیں اور “اس عمل کو جتنا ممکن ہو سکے اتنا شفاف بنانا اس کوشش کا کلیدی جزو ہے۔”
فری لانس مصنفہ، لنڈا وانگ نے یہ مضمون تحریر کیا۔