اس وقت سائنس دان یہ جاننے کے لیے کئی ایک ویکسینوں کے کلنیکل آزمائشی تجربات کر رہے ہیں کہ اُن کا استعمال محفوظ ہوگا اور وہ کووڈ-19 کی روک تھام میں موثر ثابت ہوں گی۔
اُن کا مقصد کووڈ-19 کا باعث بننے والی سارز- کوو-2 یعنی نئے کورونا وائرس کی بیماری کے پھیلنے کے سلسلے کو ختم کرنے میں مدد کرنا ہے۔
فوج کا والٹر ریڈ کا تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کا کلنیکل آزمائشی تجربات کا مرکز، کووڈ-19 کی ویکسینوں کے کئی ایک آزمائشی تجربات کر رہا ہے۔ اس مرکز کی ڈائریکٹر، لیفٹننٹ کرنل میلنڈا ہیمر کہتی ہیں، “ویکسین کے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے کلنیکل آزمائشی تجربات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ویکسین کی جانچ پڑتال کے عمل میں ہم انہیں انتہائی اہم قدم یا حتمی قدم کہتے ہیں۔ اِن سے خوراک اور دواؤں کا ادارہ یہ جان سکتا ہے کہ آیا کوئی ویکسین اتنی زیادہ محفوظ اور موثر ہے کہ اسے وسیع پیمانے کے عوامی استعمال کی اجازت دی جائے۔”
وسیع پیمانے کے استعمال میں اجتماعی مدافعت پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ صلاحیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب بہت سارے لوگوں میں کسی بیماری کے خلاف اتنی مدافعت پیدا ہو جائے کہ وہ بیماری پھیل نہ سکے۔
ویکسینوں کی تیاری مرحلہ بہ مرحلہ

دریافت کرنے کے بعد اور کلینکوں میں استعمال کیے جانے سے پہلے کے مراحل میں، ویکسین بنائی جاتی ہے اور جانوروں پر اِس کے تجربات کیے جاتے ہیں۔
امریکہ میں اگر یہ نتائج اس کے متعلق کافی معلومات فراہم کریں کہ ویکسین کس طرح کام کرتی ہے اور کیا یہ محفوظ ہوگی اور متعدی بیماری کے خلاف انسانوں میں اچھی طرح کام کرے گی، تو ویکسین تیار کرنے والے ویکسین کے کلنیکل آزمائشی تجربات کے لیے ایف ڈی اے سے اجازت کی درخواست کرتے ہیں۔
انسانوں پر کلنیکل آزمائشی تجربات اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ آیا ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور موثر ہے۔ عام طور پر اس کے تین مراحل ہوتے ہیں۔
پہلے مرحلے میں، (بالعموم کئی درجنوں پر مشتمل) رضاکاروں کے ایک چھوٹے گروپ کو ویکیسن لگائی جاتی ہے تاکہ محققین ویکسین کی مختلف خوراکوں سے اس کے محفوظ ہونے کا جائزہ لے سکیں۔ محققین یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا ویکسین کی خوراکوں کے بڑہانے سے منفی ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی حد کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔
دوسرے مرحلے میں، بے ترتیب، محدود جائزوں میں کئی سو رضاکاروں کو یا تو ویکسین یا پلیسبو (نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی جاتی ہے۔ اس مرحلے پر محققین سلامتی پر نظر رکھے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مختصر مدت کے ذیلی اثرات یا خطرات اور ویکسین کے موثرپن کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تیسرے مرحلے میں، عام طور پر ہزاروں افراد کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ (ویکسین کے بعض کلنیکل آزمائشی تجربات میں کئی ہزار افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کووڈ-19 ویکسین کے جاری آزمائشی تجربات ہیں جس میں لاکھوں کے حساب سے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔) اس مرحلے پر توجہ موثرپن، یا بیماری کو روکنے کی استعداد پر مرکوز ہوتی ہے اور اس میں ویکسین لگوانے والے لوگوں کا موازنہ اُن لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کو پلیسبو(نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔ ماڈرنا کی تیارکردہ ایم آر این اے ویکسین کے ایلانائے یونیورسٹی، شکاگو کے تیسرے مرحلے کے آزمائشی تجربات کی سربراہی کرنے والے، رچرڈ ایم نواک کہتے ہیں، “اُن لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے پلیسبو لگوائی ہوتی ہے، ہمیں ایسے لوگوں میں کم سے کم تر تعداد میں قابل تشخیص بیماریوں کی توقع ہوتی ہے جن کو ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔”
نواک کہتے ہیں کہ متنوع قسم کے لوگوں کو کووڈ-19 کی ویکسین کے آزمائشی تجربات میں شامل کرنا ضروری ہے۔ اُن کا کہنا ہے، “یہاں امریکہ میں، رنگ دار لوگوں میں کورونا وائرس کے انفیکشن غیرمتناسب طور پر زیادہ رونما ہو رہے ہیں۔ لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ویکسین کے آزمائشی تجربات لوگوں کے متنوع گروہوں پر کریں۔”
جب ویکسین بنانے والی کمپنی ویکسین کی تیاری کا اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیتی ہے اور سلامتی اور موثرپن کا معقول مقدار میں ڈیٹا جمع کر لیتی ہے تو کمپنی ویکسین کو امریکہ میں تقسیم کرنے اور مارکیٹ میں لانے کے لیے ایف ڈی اے کو درخواست کر سکتی ہے۔ ایف ڈی اے یہ وضح کرنے کے لیے کہ ویکسین کا محفوظ اور موثر استعمال عملی طور پر ثابت ہو چکا ہے، مقررہ مدت میں ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔
کووڈ-19 ویکسینوں کے معاملے میں، محققین ہنگامی استعمال کے اجازت نامے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔ مگر بعض حالات میں انہیں اس کی تائید میں عوامی صحت کی ہنگامی حالت جیسی دلیل پیش کرنا ہوتی ہے۔ (ایسے حالات میں ایف ڈی اے کے ثابت شدہ فوائد کے مقابلے میں ویکسین کے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے سے پہلے قانونی تقاضے ہر حال میں پورے کرنا ہوتے ہیں۔)

ہیمر کا کہنا ہے کہ جس تیز رفتاری سے کووڈ-19 کی ویکسینیں تیار کی جا رہی ہیں اُس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں، “ہم کئی ایک ویکسینوں کو ابتدائی آزمائشی تجربات سے، پہلے انسانی تجربات اور پھر تیسرے مرحلے کے بنیادی آزمائشی تجربات تک ایک سال سے بھی کم عرصے میں جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک حیران کن بات ہے۔ ایف ڈی اے نے اِن ٹیموں کی کام کرنے میں حقیقی معنوں میں مدد کی ہے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ اُن کے آزمائشی تجربات کے طریقہائے کار نہ صرف محفوظ ہوں اور اِن سے مطلوبہ ڈیٹا جمع ہوتا ہو بلکہ وہ محفوظ ترین ممکنہ طریقوں سے کیے بھی جا سکتے ہوں۔”
اگر کوئی ویکسین وسیع پیمانے پر استعمال بھی کی جا رہی ہوگی پھر بھی سائنس دان اور وفاقی حکومت اس کی سلامتی اور اس کے موثرپن کی نگرانی کرتے رہیں گے۔
نواک اس وقت اٹھنے والے سوالات کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: “ویکسین کا مدافعتی ردعمل کتنا پائیدار ہے؟ اور کیا ویکسین لوگوں کو دو سال تک (وائرس سے) محفوظ رکھے رہے گی؟
اُن کا کہنا ہے، “ہم اِن کے بارے میں اُس وقت تک کچھ نہیں جان پائیں گے جب تک ہم لوگوں کو ایک لمبے عرصے تک دیکھتے نہیں رہیں گے۔”
فری لانس مصنفہ، لنڈا وانگ نے یہ مضمون تحریر کیا۔