
امریکہ کی قومی سلامتی کے تحفظ کے ایک اقدام کے ذریعے صدر ٹرمپ چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی طلبا کے تبادلے کے سکالر ویزوں کے غلط استعمال کی اہلیت کو محدود کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی فوج کی مدد کرنے کے لیے انتہائی اہم اور جدید ٹکنالوجیوں کو نامناسب طور پر حاصل نہ کر سکے۔
ٹرمپ نے 29 مئی کو کہا، “برسوں سے چین کی حکومت نے ہمارے صنعتی رازوں کو چرانے کے لیے غیرقانونی جاسوسی کی ہے۔” انہوں نے یہ بات سی سی پی کی چوری اور حساس امریکی تحقیق اور ٹکنالوجی کا رخ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کو فائدہ پہنچانے کی طرف موڑنے کو روکنے کا اعلان کرتے ہوئے کہی۔
اس پالیسی کے بارے میں 2 جون کو بات کرنے والے محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے مطابق امریکہ دنیا بھر سے بشمول چین سے آنے والے بین الاقوامی طلبا اور علمی ماہرین کا خیرمقدم کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اُس زبردست کردار کی قدر کرتا ہے جو یہ طلبا اور علمی ماہرین امریکہ کے تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں ادا کرتے ہیں۔
تاہم ، چینی گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ طلباء اور محققین کے ایک چھوٹا سے طبقے کو سی سی پی نے امریکی ٹیکنالوجی، دانشورانہ املاک اور معلومات کو چوری کرنے کے لیے اپنے ساتھ ملا لیا ہے، اُن کا استحصال کیا ہے تعاون یا استحصال یا بصورت دیگر اُن سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کا مقصد چین کی فوجی غلبہ حاصل کرنے میں مدد کرنا ہے۔
ٹرمپ نے کہا، “امریکہ چین کے ساتھ ایک کھلا اور تعمیری تعلق رکھنا چاہتا ہے مگر اس تعلق کو بنانے میں ہمیں اپنے قومی مفادات کا شدت سے دفاع کرنے کی ضرورت ہے۔”
یہ اعلان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور دیگر ممالک سے حساس ٹکنالوجیاں حاصل کرنے کے لیے سی سی پی فوجی اور سویلین محققین کو دنیا بھر میں بھیج رہی ہے۔
اس اعلان میں کہا گیا ہے کہ غیرملکی تحقیق کے بل بوتے پر پی ایل اے کو مضبوط کرنے کا یہ کام اُس “فوجی – سویلین آمیزش” کی قومی سرکاری پالیسی کا حصہ ہے جو اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ سویلین شعبے کی جانب سے حاصل کردہ یا تیار کردہ تمام جدید ٹکنالوجیاں چین میں جدید فوجی پروگراموں کی تیاریوں کو فائدے پہنچائیں۔
چین کی یہ پالیسی امریکہ میں یونیورسٹیوں کی تحقیق میں کارفرما کھلے پن، شفافیت اور بین الاقوامی تعاون سے خاص طور پر ناجائز فائدہ اٹھاتی ہے۔
This is a Chinese Communist Party that has come to view itself as intent upon the destruction of Western ideas, Western democracies, and Western values. It puts Americans at risk, whether it’s stealing American intellectual property or destroying jobs here in the U.S. pic.twitter.com/89JlUuARro
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) May 31, 2020
عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) بعض چینی شہریوں پر امریکہ جیسے ملک میں تحقیق کے کھلے ماحول تک اپنی رسائی کو ابھرتی ہوئی نئی ٹکنالوجیوں کا رخ چین کی افواج کی جانب موڑنے کی خاطر استعمال کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر پی آر سی کا قومی سلامتی کا قانون یہ لازمی قرار دیتا ہے کہ سویلین ادارے اور افراد سی سی پی کے قومی سلامتی کے مفادات کو فروغ دینے اور اُن کو تحفظ دینے کی سرگرمیوں میں شریک ہوں۔
2009ء سے سی سی پی سویلین یونیورسٹیوں کو فوجی تحقیق اور ترقی میں شامل کرتی چلی آ رہی ہے۔ اس کوشش کا مقصد ایسی دفاعی تحقیق اور ترقیاتی پروگراموں کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے جو جدید ترین تحقیق سے فائدہ اتھائیں۔ یہ تحقیق سویلین یونیورسٹیوں کے نظام کے تحت کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد چین کی یونیورسٹیوں کے نظام کی دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تجربہ گاہوں کی جدید ترین تحقیق تک دن بدن بڑھتی ہوئی رسائی سے ناجائز فائدہ بھی اٹھانا ہے۔
پی آر سی 150 سے زائد چینی یونیورسٹیوں کو حساس فوجی تحقیق اور ترقی کے لیے درکار سکیورٹی کلیرنس دے چکی ہے۔ 2016ء میں ابھرتی ہوئی نئی ٹکنالوجیوں کو حاصل کرنے اور انہیں چین لے جانے کی خاطر سی سی پی اپنی یونیورسٹیوں کے نظام کو دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت کاری کرنے کی واضح ہدایات دے چکی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ عوامی جمہوریہ چین کی تحقیق چوری کرنے کی مہم چینی محققین کا استحصال کرتی ہے اور امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرات سے دوچار کرتی ہے۔
ٹرمپ نے اس اعلان میں کہا، “پی آر سی کا اپنی افواج کو جدید بنانے کے لیے حساس امریکی ٹکنالوجیوں اور دانشورانہ املاک کا حصول ہماری قوم کی طویل مدتی معاشی قوت اور امریکی عوام کی حفاظت اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔”