ٹرمپ انتظامیہ نے 24 مارچ کو ‘کی سٹون ایکس ایل’ نامی پائپ لائن کے لیے ایک اجازت نامہ جاری کیا ہے۔ جب یہ پائپ لائن مکمل ہو جائے گی تو اس کے ذریعے تیل، کینیڈا سے خلیج ٹیکسس کے ساحل کے ساتھ واقع تیل صاف کرنے والے کارخانوں میں پہنچایا جائے گا۔
اِس فیصلے سے آٹھ ارب ڈالر کی اس پائپ لائن کی قسمت کے بارے میں متعلقہ فریقین کے مابین ایک سال سے جاری بحث و تمحیص کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس فیصلے کا شمار، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے آج تک کیے جانے والے بڑے بڑے اقدامات میں ہوتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا، “یہ عقل کو حیران کر دینے والی پائپ لائن ہوگی، جس میں آج تک انسانوں کے علم میں آنے والی ٹکنالوجیوں میں سے ایک جدید ترین ٹیکنالوجی” استعمال ہوگی اور ہم اِس پر بہت نازاں ہیں۔” ٹرمپ نے کہا اس پائپ لائن سے روزگار کے ہزاروں نئے موقعے پیدا ہوں گے۔
اِس منصوبے کا جائزہ لینے کی ذمہ داری، وزارت خارجہ کی تھی کیونکہ یہ بین الاقوامی سرحد کے آر پار واقع ہے۔ محکمہ خارجہ اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پائپ لائن کی تعمیر امریکہ کے قومی مفادات کو پورا کرتی ہے۔ محکمے کا کہنا ہے کہ یہ نتیجہ ماحولیاتی، معاشی اور سفارتی عوامل کے جائزے کے بعد سامنے آیا ہے۔
کیلگری میں قائم کمپنی، ٹرانس کینیڈا نے صدارتی اجازت نامے کے لیے، 2008ء میں پہلی مرتبہ درخواست دی تھی۔ کمپنی نے اس فیصلے کو ایک “اہم سنگ میل” قرار دیا ہے۔
ٹرانس کینیڈا کے سی ای او، رس گرِلنگ نے اِس پائپ لائن کے بارے میں کہا، ” ہماری مصنوعات کو منڈی تک لے جانے کا یہ محفوظ ترین اور سب سے زیادہ قابلِ بھروسہ طریقہ ہے۔”
منصوبے کے مطابق 2,735 کلومیٹرلمبی یہ پائپ لائن البرٹا، کینیڈا سے تارکول سے نکالے جانے والے تیل کو امریکی ریاستوں مونٹینا، جنوبی ڈیکوٹا، نیبراسکا، کینسس اور اوکلاہوما سے گزرتی ہوئی ریاست ٹیکسس کے خلیجی ساحل پر واقع تیل صاف کرنے والوں کارخانوں میں پہنچائے گی۔
کی سٹون کے کچھ حصوں کی تعمیر پہلے ہی ہو چکی ہے۔
مزید اجازت ناموں کی ضرورت ہے
صدارتی اجازت نامے کے باوجود بھی پائپ لائن کو رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کا راستہ ہے اور جس کے بارے میں ریاستوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔ پائپ لائن کی مخالفت میں، مقامی امریکی قبائل اور زمینوں کے مالکان، ماحولیاتی گروپوں کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔
ٹرانس کینیڈا نے کہا ہے کہ ” اس منصوبے کو تعمیر کے مرحلے تک پہنچانے کے لیے وہ مطلوبہ اجازت نامے اور منظوریاں حاصل کرنے کی خاطر نیبراسکا، مونٹینا اور جنوبی ڈیکوٹا میں ہمسایوں سے” معاملات طے کرنا جاری رکھے گی۔
اجازت نامے پر وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن کی بجائے وزارت خارجہ میں خدمات سرانجام دینے والے ایک اعلٰی پیشہ ور سفارت کار، تھامس شینن نے دستخط کیے۔ وزیرخارجہ چونکہ تیل کی کمپنی ایکسون موبیل کے سابقہ چیف ایگزیکٹو بھی ہیں، اس لیے اُنہوں نے اپنے آپ کو اس معاملے سے علیحدہ کر لیا ہے۔
کینیڈا کے قدرتی وسائل کے وزیر، جِم کار نے کہا کہ کینیڈا کی حکومت اس فیصلے پر خوش ہے۔ کینیڈا کی تیل کی 97 فیصد برآمدات امریکہ کو کی جاتی ہیں۔
کار نے کہا، “امریکی معیشت کے لیے توانائی کے ایک محفوظ اور قابل اعتبار ذریعے سے بڑھکر کوئی چیز زیادہ اہم نہیں ہے۔ اور کینیڈا ایک ایسا ہی ذریعہ ہے۔”