
صدر ٹرمپ اور جرمنی کی چانسلر اینگلا میرکل نے 27 اپریل کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران تجارتی اختلافات پر تبادلہ خیال کیا اور یورپ کے اپنے دفاع کے لیے مزید رقم فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔
صدر نے میرکل کا شمالی کوریا پر اُس کے جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے کی خاطر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا اور اِس امید کا اظہار کیا کہ کم جون اُن کے ساتھ عنقریب ہونے والی اُن کی ملاقات کا نتیجہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی صورت میں نکلے گا جس سے پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔
اوول آفس میں ٹرمپ نے میرکل کو ایک “انتہائی غیرمعمولی خاتون” قرار دیا اور اُن کو انتخابات میں چوتھی مرتبہ منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔
ورکنگ لنچ یعنی کام کرتے ہوئے دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد تقریباً 40 منٹ طویل نیوز کانفرنس میں میرکل نے کہا، “بحر اوقیانوس کے آر پار ہمارا اتحاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہماری بقا کے لیے اس کے اہم ہونے میں کوئی شک نہیں۔” جرمن چانسلر نے کہا کہ انہیں “خوشی” ہے کہ امریکہ کے جرمنی کے لیے سفیر رچرڈ گرینل، جن کی حال ہی میں [سینیٹ] نے توثیق کی ہے اور جو ملاقات میں بھی موجود تھے جلد ہی برلن میں موجود ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سٹیل اور ایلومینیم پر نئے محصولات سے یورپ کو حاصل استثناء یکم مئی کو ختم ہو رہا ہے اور اسے ختم کرنا یا نہ کرنا صدر کے ہاتھ میں ہے۔ تاہم تجارتی مذاکرات جاری رہیں گے۔
امریکہ اور یورپ کے درمیان 151 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا، “ہمیں اپنے دوستوں اور شراکت کاروں کے ساتھ بہرصورت منصفانہ اور دو طرفہ تجارتی تعلقات رکھنے چاہییں۔”
شمالی بحراوقیانوس کے معاہدے (نیٹو) پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ نیٹو کے یورپی اراکین کو اپنی مجموعی پیداوار کے کم از کم دو فیصد، بلکہ ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ حصے کو، اپنے دفاع پر خرچ کرنا چاہیے۔ امریکہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا، “ہم پر جتنا بوجھ ہونا چاہیے اُس سے کہیں زیادہ بڑھکر بوجھ ہے۔”
میرکل نے نیٹو میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پیسے دینے والے اپنے ملک جرمنی کے بارے میں بتایا کہ جرمنی 2019ء میں دفاع پر اپنے اخراجات بڑھا کر مجموعی پیداوار کے 1.3 فیصد تک لے جائے گا۔ انہوں نے کہا، ” ہم نے ابھی تک اپنا ہدف حاصل نہیں کیا … تاہم ہم اُس کے قریب قریب پہنچ چکے ہیں۔”