اوکلاہوما کے ایک مشہور سیاہ فام علاقے، گرین وڈ میں مسلح سفید فام ہجوم نے 100 اور 300 کے درمیان سیاہ فام افراد کو ہلاک کیا اور گرین وڈ کو تباہ کر دیا۔ امریکی آج بھی 31 مئی اور یکم جون 1921 کو ٹلسہ میں ہونے والے نسلی قتل عام کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
صدر بائیڈن حملوں کی 100 ویں برسی کے موقع پر ٹلسہ جائیں گے جہاں وہ قتل کیے جانے والوں کے ورثا سے ملیں گے اور گرین ووڈ کے ثقافتی مرکز کا دورہ کریں گے۔ انہوں نے نسل پرستی کا مقابلہ کرنے، نسلی مساوات کو فروغ دینے اور پسماندہ طبقات کی مدد کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

فلوریڈا کی یونیورسٹی کی فرانزک کی ماہر بشریات، فیبی اسٹبل فیلڈ نے بتایا کہ محققین یکم جون کو گزشتہ اکتوبر میں دریافت ہونے والی ایک اجتماعی قبر کی قبر کشائی کرنا شروع کریں گے۔
مکمل قبر کشائی تک انہیں یہ پتہ نہیں چل سکے گا کہ یہاں کتنی لاشیں دفن ہیں۔ علاقے کے لوگوں کی اجازت سے، محققین ڈی این اے کے تجزیوں کے ذریعے ہلاک ہونے والوں کی باقیات کی نشاندہی کریں گے۔ اسٹبل فیلڈ نے بتایا کہ وہ گولی سے لگنے والے زخموں اور آگ سے جلنے سمیت، ہلاک ہونے والی کی باقیات میں صدمے کا بھی پتہ چلائیں گے۔
اسٹبل فیلڈ کے والدین ٹلسہ میں رہتے تھے اور اُن کے دادا کی بہن، اینا وڈز اس قتل عام سے بچ گئی تھیں۔ اوکلا ہوما کمشن نے 20 برس قبل ایک رپورٹ (پی ڈی ایف، 9.8 ایم بی) تیار کی جس میں اجتماعی قبر تلاش کرنے کا کہا گیا اور اس قتل عام سے بچ جانے والوں یا اُن کے ورثا کو تاوان دینے پر غور کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس وقت ٹلسہ شہر کے عہدیداروں نے اس رپورٹ اور سفارش کو نظرانداز کر دیی تھا۔ تاہم آج اس رپورٹ کے 20 برس کے بعد قبر کشائی کی جا رہی ہے۔ ٹلسہ کے میئر جی ٹی بائنم نے اس کیس کو 2018ء میں دوبارہ کھولا اور شہر نے اسٹبل فیلڈ جیسے ارضیاتی سروے کرنے والوں کی اجرت پر خدمات حاصل کیں۔
اسٹبل فیلڈ نے کہا، “ہم اس سچائی کی سمت میں کام کر رہے ہیں اور دوبارہ اُس تاریخ کو رقم کر رہے ہیں جسے ٹلسہ اور ریاست کے سابقہ لوگوں نے مٹانے کی کوشش کی۔”
اِن الزامات نے قتل عام کو ہوا دی کہ 12 چودہ برس کے ایک سیاہ فام نوجوان نے ایک سفید فام لڑکی پر حملے کیے ہیں۔ اس قتل عام کا شمار امریکی تاریخ کی مہلک ترین نسلی کاروائیوں میں ہوتا ہے۔ جب سفید فام بلوائی نوجوان کو مار مار کر ہلاک کرنے میں ناکام رہے تو انہوں نے اپنے غصے کا رخ “سیاہ وال سٹریٹ” کے نام سے مشہور گرین وڈ کے خوشحال علاقے کی جانب موڑ دیا۔
48 گھنٹوں کے دوران ٹلسہ کے سفید فاموں نے ٹلسہ کے سینکڑوں سیاہ فاموں کو مار ڈالا اور 800 سے زائد کو زخمی کر دیا۔ بلوائیوں نے لوٹ مار کی، اور گرین وڈ میں گھروں، کاروباروں اور دیگر اداروں کو جلایا اور تباہ کیا۔ اس کے نتیجے میں 10,000 افراد بے گھر ہوئے۔

بک کولبرٹ فرینکلن، شہری حقوق کے وکیل تھے۔ اپنے دفتر کی کھڑکی سے اُن کے آنکھوں دیکھے احوال کے مطابق، انہوں نے ہوا میں کئی ایک جہازوں کو چکر لگاتے دیکھا اور ایسی آوازیں سنیں جیسے عمارتوں پر اولے برس رہے ہوں۔ جب انہوں نے بہت ساری عمارتوں کو چھتوں سے جلتے ہوئے دیکھا تو انہیں احساس ہوا کہ بلوائی فضائی حملے بھی کر رہے ہیں۔ اپنے دفتر سے جان بچا کر بھاگتے ہوئے فرینکلن نے فٹ پاتھ پر تارپین کے جلتے ہوئے گولے دیکھے۔
فرینکلن نے اس قتل عام سے بچ جانے والوں کاعدالت میں دفاع کیا۔ انہوں نے ایک خیمے میں اپنا دفتر بنایا کیونکہ بلوائیوں نے ان کا دفتر جلا دیا تھا۔ اُن کے کام کی وجہ سے اوکلاہوما سپریم کورٹ نے ٹلسہ کے اس آرڈی ننس کو کالعدم قرار دیا جس کے تحت قتل عام سے بچ جانے والوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر میں آگ سے محفوظ رکھنے والا سامان استعمال کریں۔ فرینکلن کی نظر میں یہ آرڈیننس شہر کی زمین پر قبضہ کرنے کے مترادف تھا۔
1972ء میں تعمیر کیے گئے بی سی فرینکلن پارک کی شکل میں فرینکلن کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جان ہوپ فرینکلن مصالحتی پارک اُن کے آنجہانی بیٹے کے نام سے منسوب ہے جو کہ ایک ممتاز تاریخ دان اور شہری حقوق کے رہنما تھے۔ یہ پارک قتل عام کی یاد دلاتا ہے اور افریقی نژاد امریکیوں کے شہری حقوق کے نیٹ ورک کا ایک حصہ ہے۔ جان ہوپ فرینکلن مصالحتی پارک میں قتل عام کے مناظر کی منظر کشی کی گئی ہے اور اس سے بی سی فرینکلن اور ٹلسہ کے دیگر سیاہ فام رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔
جان ڈبلیو فرینکلن، بک کولبرٹ فرینکلن کے پوتے اور جان ہوپ فرینکلن کے بیٹے ہیں۔ وہ افریقی نژاد امریکیوں کی تارِیخ اور ثقافت کے سمتھ سونین میوزیم کے اعزازی سینیئر مینیجر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، “عام طور پر ہم جن لوگوں کی تعریف کرتے ہیں اُن کے مجسے نہیں ہوتے۔ لہذا جب آپ … کسی سیاہ فام مرد یا کسی سیاہ فام عورت کے نام سے اُسی کے علاقے میں کوئی پارک منسوب کرتے ہیں تو آپ اُس کی تاریخ کو اجاگر کرتے ہیں۔ آپ کو سمجھ آئی۔”
مقامی عہدیداروں اور قانون نافذ کرنے والوں نے کبھی بھی کسی کو قتل عام میں اس کے کردار کی وجہ سے جوابدہ نہیں ٹھہرایا۔ قتل عام سے بچ جانے والے اُن لوگوں کو جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیئے گئے تھے زرتلافی کبھی بھی نہیں ادا کی گئی۔ دہائیوں تک ہلاک کیے جانے والوں کو سرکاری طور پر یاد رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا گیا۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ اس قتل عام سے بچنے والی 107 سالہ وائیولا فلیچر، اُن کے 100 سالہ بھائی، ہیوز “انکل ریڈ” وین ایلس اور ایک اور بچنے والی 106 سالہ لیسی بیننگ فیلڈ رینڈل تاوان کے مقدمے کے مرکزی مدعیان ہیں۔ انہوں نے اس قتل عام کے مبینہ ذمہ دار ہونے کی بنیاد پر ٹلسہ، ٹلسہ کاؤنٹی، اوکلا ہوما اور ٹلسہ ایوان تجارت کو فریق بنایا ہے۔
اس قتل عام کی ایک صدی پورے ہونے سے 12 دن قبل کانگریس نے انہیں حلفیہ بیان دینے کی دعوت دی۔ ایلس نے قانون سازوں کو بتایا، “برائے مہربانی اس قتل عام سے بچ جانے والے دیگر تمام افراد کی طرح، مجھے بھی اس دنیا سے انصاف کے بغیر نہ جانے دیجیے گا۔”