ٹمبکٹو میں مزارات کو تباہ کرنے والےانتہا پسند کو سزا

چشمہ پہنے ہوئے ایک شخص۔ (© AP Images)
احمد الفقیہ المہدی اپنے مقدمے کے شروع میں، ہیگ میں فوجداری کی عالمی عدالت کے سامنے پیش ہو رہا ہے۔ (© AP Images)

22 ستمبر کو فوجداری کی بین الاقوامی عدالت نے ایک انتہا پسند مسلمان شخص کو مالی کے ریگستانی شہر ٹمبکٹو میں تاریخی مقبروں کو تباہ کرنے کی کارروائی کی سربراہی کرنے پر اسے جنگی جرم کے ارتکاب کا مجرم قرار دیا اور نو سال قید کی سزا دی۔

ایک سابق ٹیچر، احمد الفقیہ المہدی نے اپنے جرم کا اعتراف کیا اور جولائی 2012ء میں کدالوں اور ہتھوڑوں سے لیس باغیوں کے ہاتھوں  نو مقبروں اور ایک مسجد کے دروازے کی تباہی کی کارروائی میں اپنے نگرانی کرنے کے کردار پر پشیمانی کا اظہار کیا۔

22 اگست کو شروع ہونے والا اس کا مقدمہ ہیگ میں 2002 میں قائم ہونے والی فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کے لیے تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ اس عدالت کا پہلا ایسا مقدمہ تھا جس میں پہلی مرتبہ مذہبی تعمیرات یا تاریخی یادگاروں کی تباہی پر سزا دی گئی، اور ایک مسلمان انتہاپسند کومجرم قرار دینے کا فیصلہ سنایا گیا۔

اخبار نیویارک ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ تمام مسمار شدہ مقبروں کو “بحالی کے لیے بیرونی ملکوں کی طرف سے ادا کی جانے والی رقومات سے” دوبارہ تعمیر کیا جا چکا ہے۔

القاعدہ سے منسلکہ باغیوں نے 2012ء  میں صحارا کے افسانوی شہر ٹمبکٹو پر قبضہ کر لیا  اور وہاں اسلامی قانون کی کٹّر تعبیر کو نافذ کرتے ہوئے مٹی کی اینٹوں سے بنے ہوئے ان تاریخی  مقبروں کو تباہ کرنا ضروری قرار دیا  جنہیں وہ بُت پرستی گردانتے تھے۔ المہدی ٹمبکٹو کے نئے حاکموں کی طرف سے قائم کیے جانے والے “اخلاق نافذ کرنے والے دستوں” میں سے ایک کا لیڈر تھا۔

ایک شخص ریگستان میں کھنڈرات پر کھڑا ہے۔ (© AP Images)
معماروں کے سربراہ، الاسسین رامییا 2014 میں ٹمبکٹو کے اس مقبرے کا معائنہ کر رہے ہیں جسے انتہاپسندوں نے نقصان پہنچایا تھا۔ . (© AP Images)

فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کے سرکاری وکیل نے بتایا کہ المہدی ایک انتہا پسند اسلامی گروپ کا رکن تھا جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط تھے۔ اس گروپ نے 2012ء  میں شمالی مالی پر قبضہ کر لیا تھا۔ تقریباً ایک سال کے بعد، فرانسیسی فوج نے ان عسکریت پسندوں کو وہاں سے نکال دیا، اور 2014ء میں المہدی کو ہمسایہ ملک نائجر سے گرفتار کیا گیا۔

فیصلہ سنائے جانے اور قید کی سزا دیے جانے کے بعد، ملزم نے کچھ نہیں کہا۔ مقدمے کے شروع میں، المہدی نے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہا  کہ وہ اس قسم کی کارروائیوں کا ارتکاب نہ کریں جن کا خود اس نے اعتراف کیا تھا۔

اس نے کہا، “ان سے انسانیت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔”

المہدی کو عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں درج مقامات کی تباہی کی پاداش میں 30 سال کی زیادہ سے زیادہ قید کا سامنا تھا۔ لیکن سربراہ جج، رال پانگالانگان نے کہا کہ بہت سے ایسے عوامل موجود تھے جن کی وجہ سے کم مدت کی قید کی سزا مناسب معلوم ہوتی تھی۔ ان میں ایک بات تو یہ تھی کہ المہدی ابتدا میں تاریخی مقبروں کو مسمار کرنے سے گریزاں تھا۔ مزید برآں، جج کی نظر میں اس نے بڑے خلوص سے پشیمانی کا اظہار کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم (یونیسکو) نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور  دنیا کے تاریخی ثقافتی ورثے کی تباہی کے  اقدامات کو سزا سےمبرا ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا۔

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل، آئرینا بوکووا نے کہا، ” دنیا کے لوگوں اور ان کے ثقافتی ورثے کی جو باربار خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، ان کے حوالے سے فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کی دی ہوئی یہ سزا، تشدد سے بھرپور انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے میں ایک بنیادی عنصر ثابت ہوگی۔”

انسانی حقوق کی بین الاقوامی فیڈریشن کے نائب صدر، ڈرِسا ترورے نے کہا کہ المہدی کی سزایابی “مالی میں قانون سے مبرا ماحول کے خلاف جنگ کی جانب پہلا اہم قدم ہے۔”