ہر چار برس بعد دنیا کی نظریں گرمائی اولمپکس میں حصہ لینے والے دنیا کے سب سے بہترین ایتھلیٹوں پر لگ جاتی ہیں۔ اگرچہ اس مرتبہ کووڈ-19 وبا کی وجہ سے یہ انتظار بڑھکر پانچ برس ہوگیا ہے، تاہم امریکی ایتھلیٹ مقابلوں کے لیے تیار ہیں۔
خواہ چھت تلے ہونے والے جمناسٹک، تیراکی جیسے مقابلے ہوں یا کھلی جگہ سرفنگ، سکیٹ بورڈنگ، بلندی پر چڑھنے جیسے کھیل ہوں، مندرجہ ذیل امریکیوں کی متوقع کامیابیوں کی خبر رکھیں:
سیمون بائلز

24 سالہ بائلز جمناسٹک کی تاریخ کی سب سے بڑی جمناسٹ ہیں۔ وہ اولمپک کھیلوں میں سونے کے چار تمغے جیت چکی ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اپنے آخری گرمائی اولمپک میں مزید تمغے بھی جیتں گی۔ انہوں نے حال ہی میں جمناسٹک کی زبان میں “یرچینکو” کہلانے والی ڈبل قلابازی لگانے میں مہارت حاصل کی ہے۔ یہ قلابازی اتنی مشکل اور خطرناک ہے کہ آج تک کسی عورت نے اسے لگانے کی کوشش نہیں کی۔
ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والیں، بائلز اپنے فارغ وقت میں سمندری طوفانوں سے متاثر ہونے والوں کی مدد کرنے کے لیے مفت کھانا تقسیم کرنے کے ایک مرکز میں رضاکارانہ کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ صنفی عدم مساوات، نسل پرستی اور جمناسٹک کی خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتیوں جیسے سماجی مسائل پر باقاعدگی سے بات بھی کرتی ہیں۔ وہ ایک سابقہ “فوسٹر چائلڈ” ہیں (فوسٹر چائلد وہ بچہ یا بچی ہوتی ہے جس نے اپنے والدین کے علاوہ کسی اور کی قانونی سرپرستی میں پرورش پائی ہو۔) بعد میں انہیں اُن کے دادا دادی نے گود لے لیا تھا۔ انہوں نے والدین کے علاوہ کسی اور کی قانونی سرپرستی میں پلنے کے اپنے تجربات بیان کیے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے غیرمنفعتی آں لائن “یونیورسٹی آف پیپل” میں پڑھنے والے فوسٹر طلبا کی مدد کے لیے ایک سکالرشپ کا اعلان بھی کیا ہے۔
کیریسا مور

چار مرتبہ عالمی چمپین اور ہونو لولو، ہوائی سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ کیریسا مور کو 2014ء میں سرفروں کے “ہال آف فیم” میں شامل کیا گیا۔ اُن کے والد نے انہیں پانچ برس کی عمر میں سرفنگ سکھائی۔ انہوں نے ایک شوقین سرفر کی حیثیت سے سرفنگ کے 11 قومی اعزاز جیتے۔ وہ 2010ء میں پیشہ ور سرفر بنیں۔ وہ پوناہو ہائی سکول کی ذہین طالبہ بھی تھیں اور یہیں وہ اپنے شوہر سے ملیں۔ یہ وہی سکول ہے جہاں سابق صدر اوباما نے تعلیم حاصل کی تھی۔
کیریسا مور ماحولیات اور صحت کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر فارغ وقت مور الوہا پروگرام کی سرپرستی کرنے میں گزارتی ہیں۔ انہوں نے اور ان کے والد نے یہ پروگرام لڑکیوں اور نوجوان عورتوں میں عزت نفس جگانے میں مدد کرنے کے لیے ترتیب دیا ہے۔
جورڈن ونڈل

22 سالہ جورڈن ونڈل سہانوک ول، کمبوڈیا میں پیدا ہوئے۔ جب وہ ایک برس کے تھے تو اُن کے والدین فوت ہوگئے اور انہیں نوم پن شہر میں ایک یتیم خانے میں ڈال دیا گیا۔ اس سے اگلے برس انہیں ایک امریکی جیری ونڈل نے گود لے لیا۔ اُن کی پرورش فلوریڈا میں ہوئی۔ سات برس کی عمر میں جورڈن ایک ‘ سمر کیمپ’ میں شریک ہوئے۔ اس دوران ایک پیشہ ور کوچ نے اُن کی غوطہ زنی کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ دو برس بعد اس لڑکے نے پہلا قومی اعزاز جیتا۔ اس موقع پر انہیں غوطہ زنی کے چار مرتبہ اولمپک مقابلے جیتنے والے گریگ لوگینس کے حوالے سے “چھوٹے لوگینس” کا نام دیا گیا۔ ونڈل نے اس کے بعد بہت سے اعزاز جیتے۔ ٹیکساس یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران وہ دو مرتبہ این سی اے اے چمپین بنے۔
ماضی میں دو ناکام کوششوں کے بعد 2021ء میں ونڈل امریکی اولمپک ٹیم میں شامل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگرچہ انہیں تمغہ جیتنے والا کھلاڑی تو نہیں قرار دیا جا رہا مگر امریکہ اور کمبوڈیا میں اُن کے بہت سے مداح موجود ہیں۔ کمبوڈیا میں تو خاص طور پر کیونکہ 2016ء میں انہوں نے نام پن یتیم خانے کے لیے غوطہ زنی کی ایک نمائش کا اہتمام کیا تھا۔
کیئرا کونڈی

11 برس کی عمر میں کیئرا کونڈی نے سینٹ پال، منی سوٹا میں ایک کلائمبنگ ٹیم (بلندیوں پر چڑھنے والی ٹیم) میں شرکت کی۔ تاہم کمر کے مسلسل درد نے انہیں ڈاکٹروں کے پاس جانے پر مجبور کر دیا جہاں ایکسرے سے پتہ چلا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی ہے۔ گو کہ آپریشن کے ذریعے اسے ٹھیک کر دیا گیا اور اُن کے قد میں تین انچ کا اضافہ بھی ہوگیا مگر ڈاکٹروں نے انہیں خبردار کیا کہ بلندیوں پر چڑہنا اب ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ مگر چند ماہ کے اندر کونڈی نے ڈاکٹروں کو غلط ثابت کر دیا۔ 2019ء میں وہ “یو ایس اے کلائمبنگ” کے کوچوں سے تربیت حاصل کرنے کے لیے سالٹ لیک سٹی منتقل ہوگئیں۔ پھر اُن کا شمار بلندیاں سر کرنے والی دنیا کی بہترین کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔ وہ ٹوکیو اولمپکس کے لیے اس کھیل کے لیے منتخب ہونے والی اولین خواتین کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں۔
کونڈی اولمپک چینل کی سیریز “انسپائرڈ بائی سپورٹس” (کھیلوں سے متاثر ہوکر) کے لیے پناہگزین عورتوں کے ساتھ مل قدرتی طور پر وجود میں آنے والی چٹانوں پر چڑھتی ہیں۔ وہ اس سیریز کے منتظمین کے ساتھ رابطے میں ہیں اور وہ خود بھی اسی طرح کے پروگرام شروع کرنے کا سوچ رہی ہیں۔
کیلیب ڈریسل

24 سالہ کیلیب ڈریسل فری سٹائل اور بٹرفلائی تیراک ہیں۔ وہ دو مرتبہ اولمپک چمپین اور 13 مرتبہ عالم چمپین رہ چکے ہیں۔ انہیں تیز رفتار تیراکی میں مہارت حاصل ہے۔ ریاست فلوریڈا کے رہنے والے ڈریسل کو ٹوکیو اولمپکس کے سات مقابلوں میں مدمقابل کھلاڑیوں کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ اُن کے پاس 100 میٹر بٹر فلائی اور 50 میٹر فری سٹائل کے تیراکی کے شعبوں میں دو عالمی ریکارڈ ہیں۔ مائیکل فیلپ کی تربیت کرنے والے کوچ باب بومین کہتے ہیں ڈریسل کی طاقت انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔
ڈریسل کہتے ہیں کہ انہیں اپنے آپ کو بہتر بنانے کا جنون ہے۔ وہ جن چھوٹے بچوں کو سکھاتے ہیں اُن کو بتاتے ہیں کہ ہر وہ دن کامیاب دن ہوتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے ہیں۔ انہوں نے “فینا ایکواٹک میگزین” نامی ایک رسالے کو بتایا، “تیراکی میں کوئی بھی ایسی چیز ہوسکتی ہے جو ایک آٹھ سالہ بچہ مجھ سے بہتر کرتا ہو۔ میں حقیقی معنوں میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔”
نائجا ہیوسٹن

26 سالہ نائجا ہیوسٹن ایک پیشہ ور سکیٹ بورڈر ہیں اور پانچ مرتبہ عالمی چمپین کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ وہ دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ پانے والے سکیٹ بورڈر ہیں۔ انہیں اکثر باسکٹ بال کے عظیم کھلاڑی لابران جیمز کے حوالے سے “سکیٹ بورڈنگ کا لابران جیمز” کہا جاتا ہے۔ سکیٹ بورڈنگ کے مسلسل نئے کرتب دکھانے والے ہیوسٹن بتاتے ہیں کہ ریل کی پٹڑی نما لمبے ڈنڈوں اور سیڑھیوں پر سکیٹنگ کرنا اُن کو زیادہ اچھا لگتا ہے۔
ہیوسٹن اگرچہ پیدا تو ڈیوس، کیلی فورنیا میں ہوئے مگر انہوں نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ پورٹو ریکو میں گزارا جہاں انہیں نلکے کے پانی تک مستقل رسائی حاصل نہیں ہوتی تھی۔انہوں نے 2009ء میں اپنی والدہ، کیلی کے ساتھ مل کر “لیٹ اِٹ فلو فاؤنڈیشن” کے نام سے ایک غیرمنفعتی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم پسماندہ کمیونٹیوں کی صاف پانی کی مستقل بنیادوں پر فراہمی میں مدد کرتی ہے۔ ٹونی ہاک سمیت سکیٹ بورڈنگ کی نامور شخصیات کی مدد سے ہیوسٹن کی تنظیم نے ایتھوپیا اور ہیٹی کے دیہاتوں میں پرانے آبی نظاموں کو ٹھیک کیا اور نئے نظام تعمیر کیے۔ اس سلسلے میں پہلا کام ایتھوپیا کے دیہات دیبرا بریہان میں 2015ء میں کیا گیا۔
دلائلہ محمد اور سڈنی میک لاگلن

ٹریک اور فیلڈ کے شعبے میں 31 سالہ دلائلہ محمد اور21 سالہ سڈنی میک لاگلن ٹوکیو میں ہونے والی اولمپک کھیلوں کے 400 میٹر کی دوڑ میں مقابلہ کرنے والوں میں سرفہرست ہونگیں۔ ریاست نیویارک کی رہنے والی دلائلہ محمد نے 2019 میں ہونے والی عالمی چمپین شپ میں سونے کا تمغہ جیتا اور انہوں نے اس وقت 52.16 سیکنڈ کے ساتھ ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے 2016 کے ریو اولمپکس میں سونے کا تمغہ بھی جیتا۔ میک لاگلن کا تعلق ریاست نیوجرسی سے ہے۔ وہ 51.90 سیکنڈ ٹائم کے ساتھ موجودہ عالمی چمپین ہیں۔ انہوں نے یہ ریکارڈ 27 جون کو ٹوکیو میں ہونے والے کھیلوں کے آزمائشی مقابلوں میں قائم کیا۔
دلائلہ محمد کو فروری میں کووڈ-19 ہوگیا تھا۔ تاہم وہ اولمپک کھیلوں میں شمولیت کے لیے ہونے والے آزمائشی مقابلوں میں شرکت کے لیے بروقت صحت یاب ہوگئیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کھیلوں کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔ دوسری طرف میک لاگلن 1972 کے بعد ٹریک اور فیلڈ کی تاریخ میں سب سے کم عمر کھلاڑی کی حیثیت سے امریکی اولمپیک ٹیم کی طرف سے رکاوٹوں والی دوڑ میں حصہ لیں گیں۔
کیٹی لیڈسکی

24 سالہ کیٹی لیڈسکی اولمپک کے پانچ طلائی تمغے اور عالمی چمپین شپ کے 15 تمغے جیت چکی ہیں۔ دنیا میں کسی بھی خاتون تیراک کی جانب سے جیتے جانے والے تمغوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ انہوں نے 14 عالمی ریکارڈ توڑے ہیں۔ (ان میں سے بہت سے مختلف فاصلوں کے فری سٹائل مقابلے تھے۔) لیڈسکی نے جون میں سٹینفورڈ یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کیا ہے۔ ٹوکیو میں انہیں سونے کے پانچ تمغے جیتنے کا موقع ملے گا۔ (ان میں سے چار انفرادی مقابلوں میں اور ایک 4×200 فری سٹائل ریلے مقابلہ ہوگا۔)
وہ بیتھیسڈا، میری لینڈ میں رہتی ہیں۔ اولمپک ٹیم کے اُن کے ایک سابق ساتھی، فیلپس انہیں “اپنے وقت کی عظیم ترین تیراک قرار دیتے ہیں۔”
بذات خود وہ نئی نئی اولمپیئن بننے والی 15 سالہ کیٹی گرائمز کو عورتوں کی تیراکی کا “مستقبل” قرار دیتی ہیں۔ لیڈسکی اپنا زیادہ تر فارغ وقت خیراتی کاموں کو دیتی ہیں اور کیتھولک خیراتی ادارے “شیفرڈز ٹیبل”، بائکس فار دا ورلڈ اور بیتھیسڈا کے والٹر ریڈ نیوی میڈیکل سنٹر کے کاموں میں مدد کرتی ہیں۔
ایڈا لائن ماریا گرے

30 سالہ ایڈا لائن ماریا گرے 2016ء کے اولمپک کھیلوں میں شامل تھیں۔ مردوں اور عورتوں میں وہ پہلی امریکی پہلوان ہیں جنہوں نے پانچ عالمی چمپین شپ کے اعزازات جیتے ہیں۔ اپنے والد کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انہوں نے چھ برس کی عمر میں کشتیاں کرنا شروع کیں۔ اس کے بعد اس کھیل نے ان کی زندگی کی صورت گری کی۔ تاہم اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹوکیو اولمپک اُن کا آخری مقابلہ ہوگا۔ اس کے بعد وہ کولو راڈو میں اپنے گھر چلی جائیں گیں جہاں وہ اپنےشوہر کے ساتھ رہتی ہیں جو امریکی فوج کے رینجر ہیں۔
جب عورتوں کی کشتیوں کو اولمپک کھیلوں کا درجہ دیا گیا تو لڑکوں کے ساتھ کشتیاں کرتے ہوئے بڑی ہونے والی، گرے کو انتہائی خوشی ہوئی۔ انہوں نے این بی سی کو بتایا ، “عورتوں کے مقابلے کے کھیلوں کی اولمپک میں اِس شمولیت نے اُس انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے جس سے کھیلوں میں عورتوں کے بارے میں بات کی جاتی تھی اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ اُن کو زیادہ نسوانی کھیلوں کے دائرے میں محدود کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔” مئی میں انہوں نے گوئٹے مالا سٹی میں ہونے والی امریکی براعظموں کی کشتیوں کی چمپین شپ میں اپنے تمام کے تمام چار مقابلے جیتے جو کہ ٹوکیو اولمپک سے پہلے خوش کن شروعات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں “پرمسرت توانائی جو جاپان سے عورتوں کی تربیت سے مل رہی ہے وہ اور وہاں اکھاڑے سے پیدا ہونے والی دوستی بہت اچھی لگتی ہے۔”