
24 اگست سے 5 ستمبر تک ٹوکیو میں ہونے والے پیرالمپک کھیلوں میں 98 ممالک کے 4,400 کھلاڑی حصہ لیں گے۔
معذور کھلاڑیوں کے لیے سب سے بڑے بین الاقوامی مقابلے کی حیثیت سے پیرالمپک کھیلیں مشمولیت کو فروغ دیتی ہیں اور کھیلوں کی عظمت پر زور دیتی ہیں۔ اس سال، بیڈمنٹن اور تائیکوانڈو کو پیرالمپک کھیلوں میں پہلی مرتبہ شامل کیا گیا ہے۔ ٹریک اور فیلڈ، تیراکی، تیر اندازی، گھڑ سواری کے مقابلوں، کشتی رانی، جوڈو، پاور لفٹنگ، ٹیبل ٹینس اور وہیل چیئروں پر بیٹھ کر کھیلی جانے والی کھیلیں پہلے ہی سے سے پیرالمپک کھلیوں میں شامل ہیں۔
امریکی پیرالمپیئن کے پسہائے منظر اتنے ہی متنوع ہیں جتنی کہ اُن کی ایتھلیٹک کی مہارتیں ہیں۔ ذیل میں چند ایک ایسے کھلاڑیوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن سے کامیابیوں کی بہت زیادہ توقعات وابستہ ہیں:-
ایزرا فریک: ٹریک اینڈ فیلڈ
16 سالہ ایزرا فریک (اوپر تصویر میں) ٹیم یو ایس اے کے سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں۔ فریک 100 میٹر کی دوڑ، اونچی چھلانگ اور لمبی چھلانگ کے مقابلوں میں حصہ لیں گے۔
لاس اینجلیس کے رہائشی فریک کو جس وقت مصنوعی ٹانگ لگی اس وقت وہ 11 ماہ کے تھے۔ فریک معذوریوں کے حامل کھلاڑیوں کے پرزور حامی ہیں اور “اینجل سٹی گیمز” کے شریک بانی ہیں۔ اس نام سے وہ معذوریوں کے حامل بچوں اور بڑوں کے لیے ہر سال لاس اینجلیس میں مختلف کھیلوں کے مقابلے کرواتے ہیں.
میٹ سٹٹزمین، تیراندازی

ریاست آئیووا کے شہر فیئرفیلڈ سے تعلق رکھنے والے 38 سالہ میٹ سٹٹزمین تین بچوں کے باپ ہیں۔ انہوں نے اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے ہرنوں کا شکار کرنے کی خاطر تیر اندازی شروع کی تھی۔ پیدائشی طور پر بازووں کے بغیر پیدا ہونے والے سٹٹزمین نے بڑے ہوکر کمان سے تیر چلانا سیکھا اور شکار کے علاوہ انہوں نے تیر اندازی کے مقابلوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ جب کمان بنانے والے ایک ادارے نے انہیں سپانسر [سرپرستی] کرنے کی پیشکش کی تو انہوں نے اس کھیل کا بہترین کھلاڑی بننے کا عزم کر لیا۔ آج سٹٹزمین دنیا کے چوٹی کے تیزانداز ہیں۔ ٹوکیو اُن کا تیسرا پیرالمپکس ہوگا۔ 2012 میں انہوں نے لندن کے پیرالمپک میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔
انہوں نے نیوزویک رسالے کو بتایا، “تیراندازی نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ہے۔ میں اپنے بچوں کی پرورش کر سکتا ہوں۔ اب لوگ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں۔”
جیسیکا لانگ، تیراک

بالٹی مور کی 29 سالہ جیسیکا لانگ چار بار پیرالمپک کے تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ انہوں نے ایتھنز (2004) بیجنگ (2008) لندن (2012) اور ریو (2016) میں ہونے والے پیرالمپک کھلیوں میں حصہ لیا۔ ان کا شمار پیرالمپکس کی تاریخ کے کامیاب ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے اور انہوں نے 13 سونے کے، چھ چاندی اور چار کانسی کے تمغے جیتے ہیں۔
وہ سائبیریا میں پیدا ہوئیں۔ ایک امریکی جوڑے نے انہیں گود لیا۔ پیدائشی طور پر انہیں پنڈلیوں کی ہڈیوں کی بیماری تھی اور وہ 18 ماہ کی عمر سے مصنوعی ٹانگوں کی مدد سے چلتی آ رہی ہیں۔ وہ بڑی متحرک بچی تھیں۔ اپنے دادا دادی کے گھر کے عقب میں بنے تیراکی کے تالاب میں وہ اپنے آپ کو جل پری ظاہر کرتے ہوئے تیرا کرتی تھیں۔ انہوں نے 10 سال کی عمر میں اپنی زندگی کے تیراکی کے پہلے مقابلے میں حصہ لیا اور 12 سال کی عمر میں انہوں نے ایتھنز میں ہونے والے پیرالمپکس میں حصہ لیا۔
ڈینیئل رومانچک: ٹریک اینڈ فیلڈ

23 سالہ ڈینیئل رومانچک نے 2016 کے ریو میں ہونے والے پیرالمپک کھیلوں میں ٹریک کے ہر ایک مقابلے میں حصہ لیا۔ حالیہ برسوں میں وہ وہیل چیئر میراتھن کے دنیا کے چوٹی کے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ انہوں نے بوسٹن، لندن، شکاگو اور نیو یارک سٹی کی میراتھن ریسیں جیتی ہیں۔
رومانچک ماؤنٹ ایئری، میری لینڈ کے رہنے والے ہیں۔ پیدائشی طور پر ریڑھ کی ہڈی کے مسئلے کی وجہ سے وہ اپنے پاوں پر چل پھر نہیں سکتے تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے تو ان کے والدین نے انہیں کھیلوں کے ایک تربیتی پروگرام میں ڈال دیا۔ اس دوران انہوں نے محسوس کیا کہ وہ بیساکھیوں اور ٹانگوں پر لگی پٹیوں کی نسبت وہیل چیئر کا استعمال کرکے زیادہ متحرک بن سکتے ہیں۔ کلف بار اینڈ کمپنی کو دیئے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا، “میری وہیل چیئر میری آزادی ہے۔ میں نہ تو اس کا پابند ہوں اور نہ ہی اس تک محدود ہوں۔ یہ مجھے پوری دنیا میں گھما کر لائی ہے۔ میرے نزدیک کھیل کا یہی مطلب ہے یعنی اپنے آپ کو اس سے آگے لے کر جانا جہاں آپ اور دوسرے لوگ سوچتے ہیں کہ آپ جا سکتے ہیں۔”
چک اے اوکی: وہیل چیئر رگبی

30 سالہ چک اے آوکی اپنے کھیل رگبی میں امریکہ کے سب سے زیادہ گول کرنے والے ہیں۔ وہ 2012 اور 2016 کی پیرالمپک کھیلوں میں کانسی اور چاندی کے تمغے جیت چکے ہیں۔ اب وہ پیرالمپک میں سونے کا تمغہ جیتنے پر اپنی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اُن کے والدین رواں صدی کی پہلی دہائی میں ترک وطن کر کے امریکہ چلے آئے۔ اس حوالے سے گو کہ ان کی جڑیں جاپان میں ہیں مگر اے اوکی منیاپولس میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑے۔ وہ موروثی حسی اور نسوں کے درجہ دوئم کے جینیاتی مسئلے کی وجہ سے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔
اے اوکی نے 2005 کی آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہونے والی دستاویزی فلم ” مرڈر بال “ کو دیکھنے کے بعد باسکٹ بال چھوڑ کر رگبی کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ وہ 2009 سے قومی ٹیم میں کھیلتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور “کلاس روم چیمپئنز” نامی ایک غیر منفعتی تنظیم کے ذریعے نوجوانوں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ وہ بین الاقوامی پیرالمپک کمیٹی کے لیے ایک مستقل بلاگر بھی ہیں۔ لہذا ٹوکیو سے لکھے جانے والے اُن کے بلاگوں کے منتظر رہیے۔
سکاؤٹ باسیٹ: ٹریک اینڈ فیلڈ۔

32 سالہ اوکسانا ماسٹرز عالمی چیمپئن شپ اور پیرالمپک کھیلوں کے مقابلوں میں تمغے جیت چکی ہیں۔ وہ یوکرین میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے وقت ان کی پنڈلیوں کی ہڈیوں کا مسئلہ تھا جس کے وجہ سے ان کی دونوں ٹانگوں کو کاٹنا پڑا۔ انہیں 7 سال کی عمر میں ان کی امریکی والدہ نے گود لے لیا۔ وہ پہلے ریاست نیو یارک کے بالائی علاقے اور بعد میں کینٹکی میں رہیں۔ انہوں نے سرمائی کھیلوں (کراس کنٹری سکی انگ) اور گرمیوں کے کھیلوں (کشتی رانی اور ہینڈ سائیکلنگ) میں حصہ لیا۔
ماسٹرز نے2012 میں لندن کے پیرالمپک میں اکیلے چپووں والی کشتی چلاتے ہوئے کشتی رانی کی دوڑ میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ اس کے بعد انہیں کشتی رانی کی امریکی خاتون قرار دیا گیا۔ روس کے شہر سُوچی میں کمر کی چوٹ لگنے کے بعد انہوں نے سائیکلنگ شرع کر دی۔ ٹوکیومیں وہ صرف سائیکلنگ کے مقابلوں میں حصہ لیں گیں۔
وہ اپنی ویب سائٹ پر لکھتی ہیں، “مجھے نت نئے چیلنج اور مشکلات کا سامنا کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔”