
گو کہ ٹوگو کی اناپیدیدے کیباندو باتیمہ نے کمیونیکیش اور لاجسٹکس میں ڈگریاں لے رکھیں تھیں مگر اس کے باوجود انہیں ملازمت ڈھونڈنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ تاہم اُن کا بچپن اپنے والد کے فارم پر گزرا تھا اور وہ جانتی تھیں کہ سبزیاں کیسے اگائی جاتی ہیں اور مرغیاں کیسے پالی جاتی ہیں۔
چنانچہ 2020 میں باتیمہ نے امداد باہمی کی بنیاد پر ایک زرعی فارم بنایا۔ اب وہ اور دیگر خواتین کیمیائی مواد کے استعمال سے پاک نامیاتی سبزیاں اگاتی ہیں اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ پیسے بھی کماتی ہیں۔ اس سوسائٹی کا نام Société Coopérative Simplifée Best Choice ہے جو کہ فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کا مرکب ہے اور اسےمخففاً ‘سکُوپ-بی سی’ کہا جاتا ہے۔ یہ سوسائٹی ٹوگو کے دارالحکومت لومے سے چھ کلو میٹر دور زمین کے تین ہیکٹر رقبے پر واقع ہے اور شہر کے رہائشیوں کو تازہ سبزیاں بیچتی ہے۔
باتیمہ اور تین دیگر خواتین مرچیں اور پالک اگاتی ہیں اور لومے شہر میں اور فارم پر بیچتی ہیں۔ اُنہوں نے 350 مرغیاں بھی پالیں ہوئی ہیں۔ یہ مرغیاں ہر ہفتے 70 ٹرے انڈے دیتی ہیں۔
اعتماد حاصل کرنا
فروری 2020 میں باتیمہ نے امریکی محکمہ خارجہ کے (اے ڈبلیو ای) یا ‘ اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینیورز’ نامی پروگرام میں داخلہ لیا۔ اس وقت یہ پروگرام ٹوگو اور 20 دیگر ممالک میں چل رہا ہے۔ اے ڈبلیو ای نے براعظم افریقہ میں لگ بھگ 5,500 کاروباری نظامت کار خواتین کو اپنے کاروبار شروع کرنے کے خواب پورے کرنے میں مدد کی۔ اے ڈبلیو ای دنیا کے 100 سے زائد ممالک میں 25,000 سے زائد خواتین اپنے کاروبار شروع کرنے یا اپنے کاروباروں کو وسعت دینے کے لیے درکار علم اور نیٹ ورک کی سہولتیں فراہم کر چکی ہے۔
اے ڈبلیو ای نے باتیمہ کو اپنے شرمیلے پن پر قابو پانے اور کاروباری خاتون کے طور پر سوچنے میں مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ “میں خودکفیل ہو گئی ہوں۔”
“ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ “مجھ میں خوداعتمادی پیدا ہو گئی ہے اور میں کاروبار سنبھال سکتی ہوں اور اسے چلا سکتی ہوں۔””

ذمہ داریوں میں توازن پیدا کرنا
اے ڈبلیو ای کے ذریعے سیکھی گئی تزویراتی منصوبے بندی اور وقت کے بہترین استعمال کی تربیت سے باتیمہ نے کمپنی چلانے اور اپنے بچوں کی پرورش کرنے میں توازن پیدا کرنا بھی سیکھا۔ اے ڈبلیو ای نے ‘ڈریم بلڈر’ پلیٹ فارم تک رسائی بھی فراہم کی جس پر مالیات سے لے کر مارکیٹنگ اور کاروبار چلانے تک کی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔
ڈریم بلڈر پلیٹ فارم ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی نے تیار کیا ہے۔ اس کو استعمال کرتے ہوئے باتیمہ نے اپنی ضروریات کو ذہن میں رکھ کر اپنا کاروباری منصوبہ ازسرِنو تحریر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ “جب میں نے [یہ منصوبہ] شروع کیا تو میں نے کاروباری منصوبہ خود نہیں لکھا” بلکہ میں نے اسے ایک کنسلٹنٹ کے حوالے کر دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ ” اب میں یہ بات مانتی ہوں کہ آپ کے علاوہ کوئی بھی آپ کا کاورباری منصوبہ نہیں لکھ سکتا کیونکہ یہ صرف آپ ہی جانتے ہیں کہ آپ کا بزنس کیسا ہونا چاہیے۔”
دوسروں کے ساتھ اپنے تجربات و خیالات شیئر کرنا
اے ڈبلیو ای سے گریجوایشن کرنے کے بعد باتیمہ نے ہیروایکا وومن امپیکٹ سمٹ نامی کاروباری عورتوں کی ایک عالمی کانفرنس کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی اور اپنے بزنس ماڈل اور دوسروں کے تجربات سے سیکھنے کے اپنے تجربے کے بارے میں دیگر خواتین کو بتایا۔
انہوں نے بتایا کہ “[لاطینی امریکہ کے پینلسٹ بھی اس اجلاس میں] ائے ہوئے تھے اور انہوں بتایا کہ ہم کس طرح صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے کام کر سکتے ہیں۔ ہم اس حقیقت کے باوجود اپنا پیسہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اور اپنے کاروبار کو سنبھال سکتے ہیں کہ ہم مائیں ہیں اور عورتیں کاروباری نظامت کاری کے شعبے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہیں۔”
دوسروں کو سکھانا
باتیمہ اب ایسے پروگرام تیار کرتی ہیں جن کے تحت عورتوں کو نامیاتی طورپر سبزیاں اگانے اور انہیں محفوظ رکھنے کے طریقے سکھانے کے ساتھ ساتھ زچگی کے چیلنجوں میں اور کاروبار چلانے میں توازن پیدا کرنے کے طریقے بھی سکھائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نوجوان خواتین کو ہیئر ڈریسنگ اور کپڑے سینے جیسی مہارتیں بھی سکھاتی ہیں جس کے بعد انہیں مارکیٹ میں کام حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
باتیمہ نے کہا کہ “ہم جانتی ہیں کہ مل کر ہم دور تک جا سکتی ہیں۔ لہذا ہم ہر ایک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے عورتوں کو اکٹھا رکھنے کا کام کر رہے ہیں۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ نیومی ہیمپٹن نے تحریر کیا۔ محکمہ خارجہ کے تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو اس مضمون کا ایک ورژن اس سے قبل شائع کر چکا ہے۔