ٹِلرسن کا افغانستان میں اصلاحات پر زور

ریکس ٹِلرسن اور اشرف غنی بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔(© AP Images)
وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن اور افغان صدر اشرف غنی، بگرام کے ہوائی اڈے پر۔ (© AP Images)

وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے 23 اکتوبر کو صدر اشرف غنی سے ملاقات کرنے اور صدر ٹرمپ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن اور استحکام لانے کی خاطر نئی حکمت عملی کو اجاگر کرنے کے لیے افغانستان کا دورہ کیا۔

ٹِلرسن نے کہا، ” میں نے سوچا کہ افغانستان میں رکنا بہت اہم ہے …  جنوبی ایشیا کی حال ہی میں اعلان کردہ اُس پالیسی اور تزویراتی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر، جو کہ صدر ٹرمپ نے پیش کی ہے۔” افغانستان کا یہ مختصر دورہ وزیر خارجہ نے قطر کے دورے کے بعد کیا۔

امریکی سفارت کار نے کہا کہ افغان صدر نے “مجھے یہاں افغانستان میں مسلسل اصلاحات کے ساتھ ساتھ انسداد بدعنوانی کے اپنے اُن طریقہائے کار اور حکمت عملیوں کے بارے میں اپنے پختہ عزم کی یقین دہانی کرائی ہے جو یہاں کی جانے والی کاوش کے لیے بنیادیں فراہم کریں گی۔”

انہوں نے آئندہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی تیاریوں پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ ٹِلرسن نے کہا کہ “اِن انتخاب کا آگے بڑھنا بہت اہم ہے۔”

ٹِلرسن نے اخبارنویسوں کو بتایا کہ افغانستان پہلے ہی “ایک کہیں زیادہ متحرک آبادی، ایک کہیں زیادہ متحرک حکومت، تعلیمی نظام، ایک بڑی معیشت” کے فروغ کی راہ پر پیشرفتیں کر چکا ہے۔

ریکس ٹِلرسن کی قریب سے لی گئی ایک تصویر اور عقب میں جان نکلسن۔ (© AP Images)
وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کے ہمراہ۔ (© AP Images)

ٹِلرسن نے کہا، ” ہمیں بہت سے مشکل کام اور چیلنج درپیش ہیں، تاہم امریکہ اور اس کے شراکت دار یہاں افغانستان میں کامیابی کے لیے پُرعزم ہیں۔” ٹِلرسن پاکستانی لیڈروں سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کا دورہ بھی کریں گے۔

انہوں نے اخبارنویسوں کو بتایا، ” ہم نے پاکستان سے اُس مدد کو ختم کرنے کی غرض سے کاروائیاں کرنے کی بعض انتہائی خصوصی گزارشات کیں ہیں جوطالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں پاکستان میں حاصل کرتی ہیں۔”

 

ٹرمپ نے 21 اگست کو اعلان کیا تھا کہ وہ امریکی کمانڈروں کو اس بات کا فیصلہ کرنے کا مزید اختیار دے رہے ہیں کہ طالبان اور ایسے” دہشت گرد مجرموں کے نیٹ ورکوں” کے خلاف کس طرح جنگ کرنی ہے جو “افغانستان کے طول و عرض میں تشدد اور افراتفری کے بیج بو رہے ہیں۔”

صدر نے کہا، “ہمیں اُن محفوظ پناہ گاہوں کے دوبارہ ابھرنے کو ہرصورت روکنا چاہیے جو دہشت گردوں کو امریکہ کے لیے خطرہ بننے کا اہل بناتی ہیں۔” اس کے ساتھ ساتھ صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ” ہمارا عزم لامحدود نہیں ہے اور ہماری حمایت بے حد و حساب نہیں ہے۔ افغانستان کی حکومت کو اپنے حصے کا فوجی، سیاسی اور معاشی بوجھ اٹھانا چاہیے۔”

ٹِلرسن کا افغانستان کا دورہ اُن کے کئی ممالک کے دوروں کا ایک حصہ ہے۔ افغانستان کے دورے کے بعد وہ بغداد گئے۔ اختتامِ ہفتہ خلیج کے مسائل پر تبادلہِ خیالات کے لیے انہوں نے سعودی اور قطری لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ وہ اعلی بھارتی حکام سے ملاقاتوں کے لیے نئی دہلی بھی جائیں گے۔ ٹِلرسن نے گزشتہ ہفتے امریکہ کی بھارت کے ساتھ تزویراتی اور معاشی شراکتداری کے موضوع پر تقریر کی تھی۔

وہ عالمی انسانی مسائل کے موضوع پر اقوام متحدہ کے حکام کے ساتھ  تبادلہِ خیال کے لیے جنیوا میں بھی رکیں گے۔