جمہوریت کے حامی سرگرم کارکن کھلے انٹرنیٹ تک رسائی پر انحصار کرتے ہیں۔ وہ آگاہی بڑہانے، کارکن بھرتی کرنے اور احتجاجی مظاہرے منظم کرنے کے لیے ایپس، سوشل میڈیا اور دیگر ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ ووٹ دینے کی مہموں کو فروغ دینے اور کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ روابط کے دیگر پروگراموں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔
اگرچہ گوناگوں قسم کے سرگرم کارکن سوشل میڈیا کے وسائل سے فائدہ اٹھاتے ہیں تاہم انٹرنیٹ ایسے پسماندہ طبقات کے لیے خصوصی اوزاروں کے طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے جو بصورت دیگر ہو سکتا ہے اُن لوگوں سے رابطہ نہ کر سکیں جن سے انہیں رابطہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
سوشل نیٹ ورکوں کا مطالعہ کرنے والی یونیورسٹی آف میری لینڈ کی پروفیسر، جین گولبیک کہتی ہیں، “جو لوگ سوشل میڈیا سے جڑے ہوتے ہیں ان کے لیے ووٹ دینے کی یاد دہانیوں اور حوصلہ افزائی کو نظرانداز کرنا عملی طور پر ناممکن ہوتا ہے۔”
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے معلومات کا آزادانہ بہاؤ کھلی بحث اور خیالات کے تبادلے کا باعث بنتا ہے۔ یہ دونوں امور جمہوریت کے اہم اصول ہیں۔
“بلیک لائیوز میٹر” [سیاہ فاموں کی زندگیاں اہم ہیں] نامی تنظیم کے ڈی رے میکیسن کہتے ہیں، “[مارٹن لوتھر] کنگ [جونیئر] یا ایلا بیکر کے لیے یہ [ممکن نہیں تھا] کہ وہ صبح بستر سے اٹھ کر سیدھے جا کر ناشتے کی میز پر بیٹھ کر لاکھوں لوگوں سے بات کرسکتے۔”

2020 میں پیو سروے کے مطابق،امریکہ میں سوشل میڈیا صارفین میں سے 23٪ صارفین نے بتایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر کچھ نہ کچھ دیکھنے کی وجہ سے اپنی رائے بدلی۔
امریکہ میں بلیک لائیوز میٹر کی تحریک کا آغآز 2013 میں ہوا اور پولیس کے ہاتھوں افریقی نژاد امریکیوں کی ہلاکتوں کے ردعمل میں سوشل میڈیا کے ذریعے اس تحریک کو عوام کی حمائت حاصل ہوئی۔
امریکہ میں جنسی ہراسانی اور دست درازی سے بچ جانے والی عورتوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی کہانیاں شیئر کیں اور احتجاجی مظاہرے منظم کیے۔
عوامی حمایت کی خاطر بنیادی سطح پر کام کرنے والی، ترانہ برک نے 2006 میں جنسی ہراسانی اور دست درازیوں کے خلاف تحریک کی بنیاد رکھی۔ مگر 2017 میں اداکارہ الیسا میلانو کی جانب سے #MeToo [می ٹو] کے نام سے کی جانے والی ایک ٹویٹ کے بعد اس تحریک میں عالمگیر فعالیت نے جنم لیا۔

ایل جی بی ٹی کیو آئی+ کمیونٹی کے اداکارہ لیورین کاکس اور سرگرم کارکن چیلا مین جیسے اراکین ٹرانس جینڈر مسائل کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے بالترتیب ٹوئٹر اور یو ٹیوب استعمال کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے وسائل قومی سرحدوں سے آزاد ہوتے ہیں اور شہریوں کے بین الاقوامی اقدامات کو آسان بناتے ہیں۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی فیڈریشن اور حلال احمر کی انجمنوں نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے، شہریوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرنے اور اس مسئلے پر سیاسی کارروائی کا مطالبہ کرنے کے لیے #ClimateChangedMe [موسمیات نے مجھے تبدیل کیا] کے نام سے ٹوئٹر پر ایک مہم کا آغاز کیا۔ رضاکار اور سرگرم کارکن اس بحران کے بارے میں مشترکہ ویڈیوز کے ذریعے تبادلہ خیال کر تے ہیں۔
وینزویلا کے صحافی اور غیر منفعتی ادارے، میڈینالیسس کے مینیجنگ ڈائریکٹر، آندریس کانیزالیس نے کہا، “میرے نزدیک سوشل میڈیا ‘ بے کس لوگوں کی طاقت ہے۔’ وہ حالات کو تیزی سے آگے بڑہاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا امکان ہے جو اُن عام لوگوں یا سرگرم کارکنوں کے پاس ہوتا ہے جن کے پاس کوئی توپ، اخبار یا نیوز چینل نہیں ہوتا جس کے ذریعے وہ اُس طریقے کو مسترد کرنے کے اظہار کی خاطر رابطے کر سکیں، مظاہرے کر سکیں اور لوگوں سے بات کرسکیں جس طریقے سے وہ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں۔”

جولائی 2021 میں جب ہوانا اور 20 دیگر شہروں میں مظاہرین جمع ہوئے تو کیوبا کے عوام نے معاشی حالات کے خلاف احتجاج کرنےکے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔ اس کے جواب میں حکومت نے انٹرنیٹ تک رسائی کو محدود کر دیا اور مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے قوانین منظور کیے۔
ایران میں سرگرم کارکن رابطے کے لیے انسٹاگرام پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ یہ واحد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے جسے حکومت بند نہیں کرتی۔ جولائی 2021 میں جب مظاہرین کی جانب سے حکومت مخالف نعرے لگانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں تو اُس وقت حکومت مخالف مظاہرے تہران اور کئی دوسرے شہروں تک پھیل گئے۔
ایک چیلنج جس کا سامنا ڈیجیٹل کارکنوں کو کرنا پڑتا ہے وہ جابرانہ حکومتیں ہیں جو آن لائن معلومات کے آزادانہ بہاؤ کو محدود کرنے، توڑنے مروڑنے یا ان میں ہیرا پھیری کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان ممالک میں کارکن میسجنگ ایپس کا انتخاب کرتے ہیں جنہیں وہ حکومتی مداخلت کے بغیر استعمال کر سکتے ہیں اور پابندی عائد ہونے کی صورت میں پلیٹ فارم تبدیل کرلیتے ہیں۔
بیلاروس میں شہریوں نے ااگست 2020 کے انتخابی نتائج کے خلاف مظاہروں کے دوران آن لائن ویڈیوز پوسٹ کرنے کے لیے اپنے فونوں کو استعمال کیا۔ شہریوں کے نزدیک یہ نتائج دھوکہ دہی پر مبنی تھے۔
برما میں کارکن فروری کی فوجی بغاوت کے بعد میڈیا کے خلاف حکومتی کاروائیوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے انکرپٹڈ مسیجنگ ایپس، ٹیلی گرام اور سگنل پر انحصار کر رہے ہیں۔

یوکرین میں اولگا نوس نے بچوں کے سکول کے کیفے ٹیریا میں کھانا کھانے کے بعد اُن کے بیمار ہونے کی بہت سی شکایات سنیں اور انہوں نے اپنے طور پر تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ جاننے کے لیے کہ مقامی سکول کھانے کیسے حاصل کرتے ہیں انہوں نے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے تیار کردہ “ڈو زورو” نامی انسداد بدعنوانی کے ایک ڈیجیٹل نیٹ ورک سے رجوع کیا۔ نوس نے کہا، “جب میں نے ٹھیکوں کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ معیار یا معائنوں کی شرائط پوری نہیں کی جا رہیں تھیں۔”
نوس اور دیگر والدین نے ڈو زورو کے نگرانی کرنے والے پورٹل کے ذریعے کھانے کے معاہدوں کی شرائط کے پورے کیے جانے پر نظر رکھنا شروع کی۔ بالآخر ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ سکولوں کے کھانے کی خریداری کے تمام ٹینڈرز میں کھانوں کے معیار سے متعلق تقاضوں کو پورا کرنا لازمی قرار پایا۔
جب اس برس بھارت میں کووڈ-19 کی دوسری لہر اٹھی تو شہریوں نے اپنے یا رشتہ داروں کے لیے درکار سامان کی درخواست کرنے کے لیے ایپس کا استعمال کیا اور ہسپتالوں میں دستیاب بستروں اور آکسیجن کی فراہمی کے بارے میں معلومات پوسٹ کیں۔
امریکیوں نے وبائی امراض کے دوران سماجی دوری سے پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی کا تخلیقی استعمال سیکھا کیونکہ بچوں نے سکولوں میں آن لائن پڑھائی شروع کر دی تھی۔ اسی طرح مذہبی کمیونٹیوں نے بھی عبادات کے لیے آن لائن ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیئے۔
امریکہ میں ایک 39 سالہ خاتون نے کہا، “اس [سوشل میڈیا] نے مجھے جسمانی طور پر دور رہنے والے دوستوں سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ویڈیو چیٹ استعمال کرنے سے متعارف کرایا۔ ایسے لوگ تھے جنہیں میں سال میں صرف فیس بک پر یا ذاتی طور پر دو بار دیکھتی تھی مگر اب ہم مہینے میں ایک بار گروپ ویڈیو چیٹ کرتے ہیں اور میں ان کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہو گئی ہوں۔”
یہ مضمون اس سے پہلے 15 نومبر 2021 کو بھی شائع ہو چکا ہے۔