ٹکنالوجی کو آمروں کے ہاتھوں غلط استعمال ہونے سے بچانا

کھیل کے ایک میدان میں بچے اور بڑے سکیورٹی کیمروں کے قریب (© Mark Schiefelbein/AP Images)
چین کے شنجیانگ ویغر خود مختار علاقے میں اکسو کے مقام پر بچے سکیورٹی کیمروں کے نزدیک کھیل کے ایک میدان میں کھیل رہے ہیں۔ (© Mark Schiefelbein/AP Images)

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن جمہوریتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں کی ذمہ دارانہ ترقی کو یقینی بنائیں تاکہ آمرانہ حکومتوں کے ہاتھوں ان کے غلط استعمال کو روکا جاسکے۔

قومی سلامتی کے کمشن کی مصنوعی ذہانت کی ابھرتی ہوئی عالمی ٹکنالوجی سے متعلق سربراہی کانفرنس میں بلنکن نے 13 جولائی کو ایک تقریر میں کہا کہ کہ ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیوں کو جمہوری اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ ظلم و جبر کو آسان بنانے کے لیے۔

بلنکن نے کہا، “ہمیں دنیا کے اختراعی لیڈر اور معیار مقرر کرنے والے بنے رہنے کے لیے امریکہ کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کے شراکت داروں کی ضرورت ہے۔” انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “عالمی حقوق اور جمہوری اقدار کو مستقبل کی جدت میں مرکزی مقام حاصل ہو اور یہ لوگوں کی زندگیوں میں حقیقی فوائد لے کر آئے۔”

اس سربراہی کانفرنس کا انعقاد اُن  سرکاری اور نجی شعبے کے عہدیداروں اور دیگر افراد کے لیے کیا گیا تھا جو نئی ٹیکنالوجیوں کو فروغ دینے، معاشروں کا تحفظ کرنے اور اقتصادی جدت طرازی کو عام کرنے کا کام کرتے ہیں۔

 اینٹونی بلنکن ایک سکرین کے سامنے تقریر کر رہے ہیں جس پر "مصنوعی ذہانت کی ابھرتی ہوئی عالمی ٹکنالوجی کلی سربراہی کانفرنس" لکھا ہوا ہے۔ (© Jim Watson/AP Images)
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن 13 جولائی کو واشنگٹن میں قومی سلامتی کے کمشن کی مصنوعی ذہانت کی ابھرتی ہوئی عالمی ٹکنالوجی سے متعلق ہونے والی سربراہی کانفرنس میں خطاب کر رہے ہیں۔ (© Jim Watson/AP Images)

بلنکن نے کہا کہ آمرانہ حکومتیں اِن ٹکنالوجیوں کو ظلم و جبر کے آلات میں تبدیل کر رہی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے روسی حکومت کی ہیکنگ اور عوامی جمہوریہ چین کی شنجیانگ میں ویغروں اور مذہبی یا نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے دیگر گروپوں کے افراد کی نگرانی حوالہ دیا۔

ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے جس سے ہر ایک کو فائدہ پہنچے اور جو امرانہ زیادتیوں میں مدد نہ کرے، بلنکن نے کہا کہ جمہوریتوں کو مندرجہ ذیل کام کرنا ہوں گے:

  • یکساں رویے کے معیاروں اور حملوں کے اجتماعی ردعمل کے ذریعے خطرناک سائبر سرگرمیوں کے خطرات کو  کم کرنا۔
  • تکنیکی جدت طرازی میں قیادت کو برقرار رکھنا اور ففتھ جنریشن (فائیو جی) کے ٹیلی کمیونیکیشن نظاموں سمیت انتہائی اہم ٹکنالوجیوں کو مجفوظ بنانا۔
  • ایسے میں کھلے، محفوظ اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کا دفاع کرنا جب زیادہ سے زیادہ حکومتیں اختلاف رائے کو دبانے کے لیے فائر والیں کھڑی کر رہی ہیں، بولنے پر پابندیاں لگا رہی ہیں اور انٹرنیٹ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں
  • ٹکنالوجی کے لیے ایسے معیار قائم کرنا جو منڈیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرتے ہوئے صحت اور سلامتی کا تحفظ کریں۔
  • گمراہ کن معلومات اور نگرانی کرنے والی ٹکنالوجی کے غلط استعمال کا توڑ نکالنے میں جمہوریت کی حمایت کرنا۔
  • ابھرتی ہوئی ٹکنالوجی، کووڈ-19 ، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر شعبوں میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تعاون کو فروغ دینا۔

بلنکن نے کہا کہ جمہوری اقوام پہلے ہی آمرانہ حکومتوں کے ٹکنالوجی کے غلط استعمال کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ امریکی اور سات ممالک کے گروپ یعنی جی سیون کے شراکت کار ممالک ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیوں کے بارے میں مشترکہ اصول طے کر رہے ہیں۔

اپریل میں امریکہ نے روس کو سائبر دخل اندازیوں کا مورد الزام ٹھہرایا۔ شمالی اٹلانٹک کے معاہدے کی تنظیم، نیٹو، یورپی یونین اور 22 ممالک نے امریکہ کی طرف سے اخذ کردہ اس نتیجے کی حمایت کی۔ نیٹو نے اس بات پر اتفاق کیا کہ نیٹو کے کسی ایک رکن پر کیے جانے والے سائبر حملے کو تمام اراکین پر حملہ تصور کیا جائے گا۔

2020ء میں امریکہ نے مکمل احتیاط سے کام لینے کا ہدایت نامہ (پی ڈی ایف، 2.1 ایم بی) جاری کیا تاکہ امریکی کمپنیوں کی یہ یقینی بنانے میں مدد کی جا سکے کہ اُن کی مصنوعات ظلم و جبر کے لیے استعمال نہ ہوں۔

بلنکن نے کہا، “ہمارا مقصد سب لوگوں کے فائدے کے لیے ٹیکنالوجیاں ڈیزائن کرنے اور انہیں متعارف کروانے کے لیے مشترکہ اقدار  اور مشترکہ عزم کے ذریعے جڑے ملکوں، کمپنیوں، یونیورسٹیوں کے مضبوط نیٹ ورک [میری مراد  واحد نہیں جمع نیٹ ورک]  ہیں۔