ٹیکساس اور بیلیز کی آئس کریم کی دکانوں کی کامیابی کا “سانجھا سکُوپ”

ہرنن اربینا اور ایک عورت پیسوں کے گلے کے پاس کھڑے ہیں۔ (Courtesy of Ice Break)
ہرنن اربینا اپنے خاندان کی آئس بریک نامی آئس کریم کے دکان میں ایک گاہک کو آئس کریم دے رہا ہے۔ (Courtesy of Ice Break)

جب ہرنن اربینا پانچ برس کا تھا تو اُس کی والدہ نے اسے ٹافیوں بھرا ایک تھیلا خرید کر دیا۔ اِس میں اُسے ایک موقع دکھائی دیا۔

اُس نے سکول میں اپنے والد کی نقل کرتے ہوئے اپنے ہم جماعتوں کو یہ ٹافیاں بیچ دیں کیونکہ وہ اپنے والد کی زبانی سن چکا تھا کہ اس عمر میں اُس [یعنی ہرنن کے والد] نے یہی کچھ کیا تھا۔ ہرنن اربینا سینیئر، بیلیز کے ایک چھوٹے سے قصبے میں ایک ٹرائی [تین پہیوں والی] سائکل پر قلفیاں بیچتے ہوئے بڑا ہوا تھا۔ بیلیز، کیریبین کا ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی سرحدیں میکسیکو اور گوئٹے مالا سے ملتی ہیں۔

چھوٹے اربینا کا کہنا ہے، “بہت چھوٹی عمر میں، میں ہمیشہ [کچھ نہ کچھ] فروخت کرتا رہتا تھا۔ اُس کی والدہ اسے بتاتی ہیں کہ اُنہیں پقین تھا کہ وہ بڑا ہو کر تاجر بنے گا۔

امریکی براعظموں کے نوجوان لیڈروں کے پروگرام کا یہ 29 سالہ گریجوایٹ آج اورنج واک، بیلیز میں اپنے خاندان کی آئس کریم کی دکان چلاتا ہے۔ ‘آئس بریک’ نامی یہ دکان اپنے پہلے عشرے میں اتنی ترقی کر چکی ہے کہ آج اس میں 10 ملازم کام کرتے ہیں۔ اس کی کامیابی کا جزوی اعزاز بیٹے کی دکانداری اور والد کے آئس کریم کے ذائقوں کو جاتا ہے۔ اِن ذائقوں میں ‘ڈریگن فروٹ’ سے لے کر ‘ہاٹ چیٹو’ آئس کریم جیسے ذائقوں تک ہر ایک ذائقہ شامل ہے۔

تاہم اربینا ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ امریکی براعظموں کے نوجوان لیڈروں کے پروگرام سے حاصل ہونے والے تجربے نے اسے اپنا کاروبار بڑھانے میں مدد کی۔ یہ امریکی پروگرام لاطینی امریکہ کے کاروباری نظامت کاروں کو امریکی کاروباروں سے تربیت حاصل کرنے کے لیے امریکہ لاتا ہے۔ آسٹن، ٹیکساس میں واقع ‘ ایمیز آئس کریمز’ کی دکان میں اربینا نے تربیت حاصل کی۔ ایمیز کا کمیونٹی پر دھیان، اربینا کے [13,000 کی آبادی والے] قصبے اورنج واک کے گھرانوں کے لیے ‘آئس بریک’ کے اکٹھے ہونے کی جگہ کے تصور سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ ٹیکساس کی ایمیز کے آئس کریم کے سٹوروں کا اپنا ایک سلسلہ ہے۔ ملازموں کو کاروباری سرگرمیوں کی رفتار کے ساتھ ساتھ چلانے کی اس سلسلے کی کوششوں نے اربینا کو یہ سکھایا کہ وہ اپنے ملازمین کو یہ احساس کرنے میں مدد کرے کہ وہ بھی اس کامیابی میں شریک ہیں۔

اربینا کا کہنا ہے، “ایمیز کی جو بات مجھے پسند آئی وہ اُن کا کام کرنے کا طریقہ ہے۔” کمپنی کے کارکنوں کو کمپنی کی آمدن کے بارے میں بتانا کارکنوں کو “اس بات پر مطمئن محسوس کرنے میں مدد کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے حصے کی ذمہ داریاں نبھائیں۔”

ایمیز آئس کریمز کے ڈائریکٹر ایرون کلے کہتے ہیں کہ کاروباری نظامت کاری میں ملازمین کی تربیت سے ایمیز اور کمیونٹی دونوں کو فائدہ ہوا ہے۔ ایمیز کے ملازمین کو ‘سکوُپس’ کہا جاتا ہے۔ جب سابقہ سکوُپس دوسری کمپنیوں میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا ہمارے کاروبار پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ اور ہاں اس دکان کی تعلیم پر توجہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملازمین لمبے عرصے تک کام کرتے ہیں جس سے خورد و نوش کی صنعت میں تیزی سے ملازمتیں تبدیل کرنے میں کمی آتی ہے۔

کلے کا کہنا ہے، “یہ ایک نقصان اور صلے کا کھیل ہے۔ کسی ایسے شخص کو جلدی کھو دینے کی جس [کی تعلیم] پر پیسے لگائے گئے ہوں تلافی اُن لوگوں کی اچھائی سے ہو جاتی ہے جو رکے رہتے ہیں۔”

اربینا اس بات سے اتفاق کرتا ہے۔ جب آئس بریک کے ملازمیں پیسٹریاں بنانے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں تو اربینا انہیں [تربیتی] کلاس میں بھجوا دیتا ہے اور اُن کی پیسٹریاں بیچنا شروع کر دیتا ہے۔ اُن کے ملازمین میں سے ایک نے گھر سے اپنا کاروبار چلانا شروع کر دیا اور دوسرا کسی بیکری میں کام کرنے پر لگ گیا۔ مگر اُن کی ترقی ہر ایک کی ہمت بڑہاتی چلی آ رہی ہے۔

اربینا اپنی سوشل میڈیا اور مارکیٹنگ کی ذہانت کا اعزاز اپنے ٹکیساس کے تجربے کو دیتا ہے۔2016 میں ‘آئس بریک’ نے اپنے کاروبار کو وسعت دی اور ریستورانوں کو آئس کریم بیچنا شروع کر دی۔ اور اب یہ کاروباری خاندان آئس کریم کی ایک اور دکان یا ممکنہ طور پر ریستوران کھولنے پر غور کر رہا ہے۔

کلے ایمیز میں بیرونی زاویہ نظر لانے کا اعزاز اربینا کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی براعظموں کے نوجوان لیڈروں کے پروگرام کی مدد سے اربینا کی تربیت مکمل ہونے کے بعد، طویل عرصے سے دونوں کاروبار ای میل کے ذریعے آپس مین نئے خیالات کا تبادلہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اربینا کا کہنا ہے، “میں اس پروگرام کا بہت مشکور ہوں۔ اس نے میری جھجک دور کی اور زیادہ بے باک بننے اور پورے بیلیز میں لوگوں سے رابطہ کرنے میں میری مدد کی۔”

بیلیز کے پرچم کے پاس لائن میں کھڑے لوگ۔ (Courtesy of Ice Break)
ہرنن اربینا، دائیں، اور آئس بریک کے ملازمین کے بیلیز کی آزادی کا جشن منا رہے ہیں۔ اربینا کے خاندان نے 2009ء میں آئس کریم کی دکان کھولی اور آج اس کے عملے کی تعداد دگنی ہو چکی ہے۔ (Courtesy of Ice Break)