مخففا “سٹیم” کہلانے والے سائنس، ٹکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی سے متعلقہ شعبوں میں کامیاب ہونے والی بہت سی خواتین ان دوسری عورتوں پر انہی شعبوں میں کامیابی کے دروازے کھولتی ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے “ٹیک ویمن پروگرام” [ٹکنالوجی کے شعبوں سے متعلق عورتوں کا پروگرام] افریقہ، وسطی اور جنوبی ایشیا، اور مشرق وسطی میں عورتوں کے ٹیکنالوجی سے متعلق نیٹ ورکنگ کو مضبوط بناتا ہے۔ یہ پروگرام اِن عورتوں کو اُن کے امریکی سرپرستوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ سرپرست کامیاب ہونے کے لیے اِن عورتوں کو وسائل اور معلومات حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران اس پروگرام کے تحت “ٹیک گرلز” نامی پروگرام [ٹکنالوجی کے شعبوں سے متعلق لڑکیوں کے پروگرام] میں شریک بارہ پندرہ برس کی لڑکیوں کو ٹیک ویمن کی سابقہ شرکاء کے ساتھ جوڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں بین النسلی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔ [عورتوں اور لڑکیوں، دونوں کے پروگرام محکمہ خارجہ کا تعلیمی اور ثقافتی امور کا بیورو چلاتا ہے۔]
پانچ ہفتوں کے ٹیک ویمن پروگرام کے تحت عام طور پر عورتوں کو ٹکنالوجی سے متعلقہ پیشوں کی بنیادوں پر سلیکون ویلی، کیلی فورنیا میں واقع کمپنیوں میں پراجیکٹوں کی بنیاد پر لے جایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں اس پروگرام کے تحت واشنگٹن میں ہونے والی مخصوص تقریبات میں بھی لے جایا جاتا ہے۔ اس برس کورونا وائرس کی وجہ سے یہ پروگرام آن لائن منعقد کیا گیا۔ ٹیک ویمن شرکاء کے پیشوں اور اُن کے مثالی نمونوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ اس پروگرام کے سابقہ شرکاء اپنے ملکوں میں کمیونٹیوں کی معیشتوں کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔
ٹیک ویمن کی کامیابیاں
اس پروگرام کی دو سابقہ شرکاء نے حال ہی میں اپنے ٹیک ویمن سفروں کی روداد بیان کی۔
38 سالہ فاطن خلف اللہ حمودہ تیونس کے شہر صفاقس میں رہتی ہیں۔ وہ ثانوی سکول کے طالبعلموں کو انفارمیشن ٹکنالوجی پڑہاتی ہیں اور “فرسٹ سکلز کلب” کی صدر ہیں۔ یہ تنظیم بچوں کو سٹیم مضامین پڑہائے کے دوران انگریزی میں گفتگو کرنے میں مدد کرتی ہے۔
خلف اللہ حمودہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام سے انہیں قائدانہ اور پراجیکٹ کی انتظام کاری کی مہارتیں سیکھنے میں مدد ملی جس کی وجہ سے تعلیم میں اُن کے کام پر مثبت اثر پڑا۔ وہ کہتی ہیں، “مجھے لڑکیوں کی سرپرستی کرنا اور ان کی مستقبل میں عورتوں کی لیڈر بننے میں رہنمائی کرنا بہت ہی اچھا لگتا ہے۔”

35 سالی نسرین دیب بیروت میں رہتی ہیں۔ ٹیک ویمن پروگرام مکمل کرنے کے بعد، انہوں نے “عرب ویمن اِن کمپیوٹنگ” [کمپیوٹر کے شعبے میں عرب عورتیں] کی لبنانی شاخ کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک غیرمنفعتی تنظیم ہے جو انفارمیشن ٹکنالوجی کے شعبے میں عورتوں کے نمایاں پن اور عرب عورتوں کی حیثیت کو بڑہانے کے لیے وقف ہے۔ انہوں نے کسی کے ساتھ مل کر “گرلز گوٹ اِٹ انشی ایٹو” کے نام سے ایک پروگرام کی بنیاد بھی رکھی جس کے تحت 3,500 سے زائد سکول کی لڑکیوں کو سٹیم کی مہارتیں سکھائی جا چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں ٹیک ویمن سے دور اندیشی حاصل ہوئی یعنی “ایک چھوٹا کام کس قدر بڑا اثر مرتب کرتا ہے۔” آج کل وہ ایک غیرمنفعتی تنظیم “کاروباروں میں عورتوں کی لبنانی لیگ” کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ اس تنظیم کا نصب العین ہے: “سبقت حاصل کریں اور کامیاب ہوں۔”
ٹیک گرلز کی امنگیں
ٹیک ویمن کے پہلے کامیاب سال کے بعد، محکمہ خارجہ نے واشنگٹن سے 2012 میں لڑکیوں کے لیے ٹیک گرلز پروگرام شروع کیا۔ یہ مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا کے سٹیم مضامین سے متعلقہ شعبوں میں اپنا مستقبل بنانے میں دلچسپی رکھنے والی لڑکیوں کا موسم گرما میں چلایا جانے والا تبادلے کا ایک بین الاقوامی پروگرام ہے۔ اس میں پندرہ سے سترہ برس کی عمر کی لڑکیاں حصہ لے سکتی ہیں۔ کوڈنگ، ویب ڈویلپمنٹ اور ڈیٹا سائنس جیسے موضوعات کے بارے میں سیکھنے کے لیے یہ لڑکیاں ٹکنالوجی کے موسم گرما کے کیمپ میں شامل ہوتی ہیں۔ اس برس یہ کیمپ آن لائن منعقد کیا جا رہا ہے۔

تیونس کی بیس سالہ اونز خارات نے سمر کیمپ منعقد کرنے کے لیے ٹیک گرلز پروگرام میں سیکھی گئی اپنی مہارتوں کو استعمال کیا۔ اس کیمپ میں گیارہ سے سترہ برس کے بچوں کو روبوٹکس، تھری ڈی ڈیزائن اور جاوا پروگرامنگ میں تربیت دینا تھا۔
زینب معالج اور مریم گزینی کا تعلق بھی تیونس سے ہے۔ معالج سترہ برس کی ہیں اور ابھی ثانوی سکول میں پڑھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ٹیک گرلز نے انہیں پراجیکٹوں پر بہتر طور پر کام کرنے اور لوگوں کے سامنے بات کرنے کے لیے اعتماد حاصل کرنے میں مدد کی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام کی وجہ سے وہ مجموعی طور پر “ایک زیادہ سمجھدار، ذمہ دار اور شخص بن گئی ہیں۔”
اٹھارہ سالہ گزینی دوسری ٹیک گرلز کے ساتھ اپنی دوستیاں پروان چڑہانے اور سب لوگوں کے مستقبل کے لیے ٹکنالوجی کی اہمیت کے بارے میں اُن کے یقین کی توثیق کا سہرہ اس پروگرام کے سر باندھتی ہیں۔

اردن کی فرح غنمہ اور سورہ عبدالت دونوں بیس برس کی ہیں اور دونوں ٹیک گرلز پروگرام میں شرکت کر چکی ہیں۔ غنمہ کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے صحیح راستے پر ڈالا جبکہ عبدالت کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کی بدولت ان کی سٹیم سے متعلقہ کاموں میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے اور انٹرن شپ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں انہیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالر شپ حاصل کرنے میں مدد ملی۔
انیس سالہ یاسمینا العائشے اور اکیس سالہ ریوا مطار کا تعلق لبنان سے ہے۔
العائشے بتاتی ہیں کہ ٹیک گرلز نے انہیں متنوع ثقافتوں اور سوچوں سے متعارف کرایا۔ اور ہاں ایک اضافی فائدہ بھی تھا: “شرکاء کے درمیان کوئی مسابقت نہیں تھی بلکہ لطف اور غیرمشروط مدد تھی۔”
مطار کہتی ہیں کہ اس پروگرام نے “ٹکنالوجی کے لیے اُن کے شوق” میں اضافہ کیا۔ وہ ایک نئی کمپنی پر کام کر رہی ہیں اور اپنی یونیورسٹی کے طبیعیات اور فلکیات کے کلب کی نائب صدر ہیں۔
عورتوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے سے ملانا
ان دونوں پروگراموں کے نیٹ ورکنگ پر دیئے جانے والے زور کے پیش نظر، یہ حیرانگی کی بات نہیں ہے کہ ٹیک ویمن کی سابقہ شریک عورتوں نے ٹیک گرلز کی طالبات سے سے رابطے کیے ہیں۔ تیونس کی خلف اللہ حمودہ نے اپنی بہت سی شاگرد طالبات کی ٹیک گرلز پروگرام میں درخواست دینے میں حوصلہ افزائی کی ہے۔
ان علاقوں میں جہاں عورتوں اور لڑکیوں کے یہ دونوں پروگرام یکجا ہوتے ہیں وہاں سابقہ شرکاء کو منسلک کرنے والے کلب وجود میں آ چکے ہیں۔ اس کا مطلب سرپرستی کے مواقع میں اضافہ ہے۔
محکمہ خارجہ کا منصوبہ ہے کہ ٹیک گرلز پروگرام میں ایک منظم، باضابطہ سرپرستانہ جزو شامل کرکے اس پروگرام کے ذریعے پیش کیے جانے والے مواقع کو مزید مظبوط بنایا جائے۔ 2022 میں ٹیک گرلز پروگرام کو دنیا کے تمام خطوں کے شرکاء کو شامل کرنے کے لیے دنیا میں پھیلا دیا جائے گا۔
مزید معلومات آئندہ حاصل کرنے کے لیے اور پروگراموں میں شامل ہونے کی مستقبل کی حتمی تاریخوں کے اعلان کے بارے میں جاننے کے لیے ٹیک ویمن اور ٹیک گرلز کی ویب سائٹیں دیکھیے۔